کیانی صاحب’’ آؤمٹی ڈالیں ‘‘ میں نے چونک کر عظمت مغل کی طرف دیکھا اور بے ساختہ ایک جملہ میرے منہ سے نکل کر رات کی تاریک فضاؤں میں گونج گیا ’’میں کسی زندہ شخص پر مٹی نہیں ڈالتا ‘‘عظمت مغل پر جیسے سکتا طاری ہو گیا وہ کبھی حیرت سے میرا منہ تکتا اور کبھی لحد کے
اندر جھانکتے ہوئے پاتا ل کی گہرائیوں میں کھو جاتا ۔
زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے
منوں مٹی تلے ہم جس شخص کو دفن کر رہے ہیں کیا وہ زندہ ہے ؟اپنے ہاتھوں تابوت اتارا،۔۔۔۔رسم دنیا نبھائی ،پھول پتیاں نچھاور کیں لیکن ۔۔۔۔۔کیا وہ پھر بھی زندہ ہے ؟جمیل قلندر ‘حافظ ناصر اور آصف کے بت تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ہولے ہولے دائیں بائیں سرک رہے تھے کچھ زندہ لاشیں ایک زندہ شخص کو بھاری بھاری پڑیوں کے نیچے رکھ کے مٹی کے ڈھیر تلے دفن کر رہی تھی ۔یہ کیسا تماشا ہے کیا زندہ لاشیں کسی زندہ شخص کو برداشت نہیں کر سکتی ۔زندگی کیا ہے ؟کیا کسی جذبات و احساسات سے عاری بت کے دل کے دھڑکنے اور سانس لینے کا نام زندگی ہے ؟نہیں نہیں ایسا قطعی نہیں زندگی کا علی ترین نمونہ حیات انسانی ہے جس کا دل احساسات‘ جذبات اور رواداری کے مدھر سروں کو تال دیتا ہے جو جبرو استحصال کے کو ہ کو اپنی فکر کے شیشے سے ریزہ ریزہ کر دیتا ہے ایسے انسان اللہ کا خصوصی انعام و عطیہ ہوا کرتے ہیں ۔
میرے زہن کا چرخہ تیزی سے گھوم رہا تھا اور نہ جانے فکر و فلسفہ کی کن کن پونیوں کو ریشہ ریشہ ریشم کر رہا تھا یہ23ستمبر کی ادھ موئی رات تھی ہم ایک زندہ شخص دل پزیر شاد کے ظاہری جسم کو مٹی کے سپرد کر رہے تھے لیکن حقیقت میں دل پزیر شاد موت کو کب کا شکست دے چکا تھا انہوں نے قلم اور سوچ کے برش سے زندگی کی تصویر کے بدنما دھبے اتارنے کی کوشش کی 1960کے لگ بھگ اپنا ادبی سفر شروع کیا اور اسی سفر میں معاشرتی ناہمواریوں ‘معاشرے کے بگڑے کرداروں اور جبر و استحصال کے خلاف جی بھر کر لکھا ۔سخن سلوک ‘ویلے نی اکھ پوٹھواری شعری مجموعہ ،پوٹھواری لغات اور اردو غزل کا پوٹھوار رنگ ،اردو غزلیات کا پوٹھواری ترجمہ ان کا یادگار کارنامہ ہے علاوہ ازیں تقریباََ14کتابیں تصنیف کیں۔مختلف ادبی و ثقافتی تنظیموں کی جانب سے انہیں کم و بیش 12ایوارڈ د ئیے گئے جن میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایوارڈ اور سرکار شہید زمان مرزا علمی ادبی ایوارڈ ان کی خدمات کا بہترین اعتراف ہیں ۔کلرسیداں کے علاقہ سے پہلی بار 1980میں ادبی سلسلہ ’’ نگارش‘‘اور صحافتی میدان میں حکومت پنجاب سے منظور شدہ ہفت روزہ ’’سنگ پوٹھوار ‘‘کا 1991میں اجراء ان کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے ۔آپ نے ٹی وی اور ریڈیو پر بھی بے شمار پروگرام کئے فیچر‘ڈرامے ‘تقاریر اور سکرپٹس لکھے ،کمپےئرنگ ‘مشاعرے اور گیت نگاری کے زریعے اپنی صلاحیتوں کو منوایا ۔ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے مقبول عام پروگرام ’’جمہورنی واز‘‘کے
معروف کردار اختر جعفری المعروف راجہ صاحب اور ان کی ٹیم کو کلر سیداں بلانا ایک یادگار پروگرام تھا جسے آج بھی لوگ نہیں بھولے ۔پوٹھواری ادبی سنگت کے نام سے پوٹھواری ادبی تنظیم اور حلقہ احباب سخن کے نام سے ادبی تنظیم کی بنیاد رکھی جن میں معروف شخصیات جناب فرزند علی جسوال اور سید الیاس شاہ خصوصی معاونت فرماتے یہ دو صاحبان کلر سیداں کو تحصیل بنانے کی تحریک کے بانی سمجھے جاتے ہیں ۔ان تنظیموں کے زیر اہتما م خصوصی دنوں میں بھی پروگرام ترتیب دئیے جاتے جن میں راولپنڈی اسلام آباد کے شعراء اور مضافات کے شعراء کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جاتا۔آپ کا ادبی سفر بلخصوص پوٹھواری ادب سے جڑا ہوا ہے جدید پوٹھواری ادب اور دل پزیر شاد درحقیقت ایک ہی تصویر کے دو روپ ہیں آپ تمام عمر پوٹھواری زبان و ادب کے فروغ کے لئے جہد مسلسل کی تصویر بنے رہے ہندکوادبی کانفرنس پشاوراور ورلڈ پنجابی کانگریس لاہور میں پوٹھوار کی نمائندگی کرتے رہے ۔وہ پیشے کے لحاظ سے معلم اور اپنے کردار کے لحاظ سے طالب علم تھے ۔ان کے بارے میں معروف اہل قلم کی رائے کچھ یوں ہے ۔۔۔۔!
اگر میں دل پذیر شاد کو پوٹھوار ی کا مولوی عبدالحق کہوں تو بے جا نہ ہو گا(راجہ شاہد رشید)
دل پذیر شاد ایک عہد کا نام ہے (عابد حسین جنجوعہ)
دل پذیر شاد ہم سے آگے نکل گیا ہے ہم نے باتیں کی اس نے کام (اختر امام رضوی)
دل پذیر شاد ایک تحریک کا نام ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی(عظمت مغل)
دل پذیر شاد نے ادب سے عشق کیا اور یوں خود بھی سراپا ادب ہو گئے (ذہین احمد)
جدید پوٹھواری ادب کے لئے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں (شہزاد طاہر )
دل پذیر شادکی موت بے حس معاشرے کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے (نصیر زندہ)
دل پذیر شادصاحب ادب کی روح رواں تھے (قمر عبداللہ)
دل پذیر شادپوٹھواری ادب کا ستون تھے (محمد نیاز جوشی)
انہوں نے جس قدر بڑے کام انجام دئیے وہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں (ناصر محمود عاطر )
آپ کی زات نئے لکھنے والوں کے لئے ایک نمونہ تھی (ہارون شہباز)
دل پذیر شاددلوں میں مدتوں زندہ رہے گا (محمد اعجاز بٹ)
بے شک دل پذیر شاد اپنے افکار ،اپنے علمی،ادبی اور بلخصوص پوٹھواری زبان کی ترویج و ترقی کیلئے انجام دئیے گئے بے مثال کام کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔زندہ باد دل پذیر شاد ۔۔۔۔!{jcomments on}