داعش کیا ہے؟دولتِ اسلامیہ عراق و شام۔داعش اس کا مخفف ہے۔ ہمیں مگر نام سے کیا غرض؟ہم اس کی وحشت وبربریت کو دیکھتے ہیں اور جان کی امان چاہتے ہیں۔تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ نو آبادیاتی نظام کی تشکیل،اس کی بقا اور دیگر سامراجی مقاصد کے لیے سامراج کو کارندوں کی بھی ضرورت تھی۔ہم اگر صرف بر صغیر کی تاریخ اور اس کی تقسیم کے طریقہ کار کو دیکھیں تو ہمیں پولیس کا کردار ہی یہ سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ نو آبادیاتی نظام کی بقا کے لیے عالمی سامراج نے کیسے کیسے بندوبست کیے ہوئے ہیں۔ پاکستانی سیاست آج بھی برادری،پیسے اور پولیس کی تکون سے چلتی ہے۔ہم پاکستانی ابھی تک انگریز کے بنائے ہوئے ایسے قوانین کے ذریعے انصاف کی توقع کرتے ہیں جو قوانین بجائے عدل کے سائل کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں۔امریکی سابق رکن کانگریس کا کہنا ہے کہ عراق پر امریکی حملے کی وجہ سے ہی داعش تخلیق ہوئی۔ اگرچہ یہ اعتراف اپنی جگہ پر بڑی بات ہے۔ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ داعش کی تخلیق میں امریکہ،سعودی عرب، قطر،ترکی اور اسرائیل سمیت کئی مسلم ریاستوں کا کردار کلیدی ہے۔سابق امریکی رکن گانگریس رول پال کا مگر یہ کہنا کہ امریکی حملے سے پہلے شام و عراق میں القاعدہ و داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کا کوئی وجود ہی نہیں تھا،درست بات نہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ عراق پر امریکی حملے سے پہلے ہی القاعدہ معرضِ وجود میں آچکی تھی اور اس کی تخلیق میں بھی امریکہ کا کردار کلیدی ہی تھا۔رول پال کی اس بات ست اتفاق ہے کہ داعش پر جیسے جیسے امریکی اور اس کے اتحادی طیاروں کی’’نام نہاد‘‘ بمباری ہوتی رہی اور اس کی افرادی قوت میں کمی آتی گئی تو داعش نے اسی رفتار سے نئی افرادی قوت بھرتی کی۔یہ افرادی قوت مشرقِ وسطی کے ممالک اور بالخصوص امریکہ و یورپ کی نوجوان نسل ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا دوہرا معیار داعش کو مضبوط کرنے کا باعث بنا۔ داعش نہ صرف عراق و شام بلکہ پوری دنیا پر اپنی نام نہاد وحشیانہ خلافت کے خواب دیکھ رہی ہے۔ القاعدہ اور النصرہ البتہ جہاں مسلمانوں کا قتال کرنے میں داعش کے ساتھ ساتھ ہیں، وہیں یہ دونوں گروہ داعش سے بر سرِ پیکار بھی ہیں۔ یہ وہی القاعدہ ہے جسے امریکہ نے اپنی ’’ہٹ لسٹ ‘‘پر رکھا ہوا تھا مگر آج امریکہ داعش کے مقابلے میں القاعدہ ،النصرہ اور دیگر تکفیری دہشت گردوں کو ’’معتدل دہشت گرد‘‘ کہہ کر ان کی مدد کر رہا ہے۔امریکہ ایک تسلیم شدہ عالمی طاقت ہے مگر اس کی بد دیانتیاں بھی تسلیم شدہ ہیں۔ دھوکہ،فریب کاری اورعیاری میں اس کا کوئی ثانی نہیں، لیکن ہمیںیہ بھی خیال رہے کہ امریکہ وہی کرے گا جو اس کی ریاستی پالیسی اور امریکی عوام کے لیے بہترہوگا۔ سو وہ ایسا کرتا رہے گا۔داعش کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادی طیاروں نے فضا سے اگر دو بم فائر کیئے تو داعش کی مدد کے لیے کئی ٹن اسلحہ بھی گرایا۔خطے میں مگر عسکری و سیاسی تبدیلی روس کی داعش اور دیگر دہشت گردوں کے خلاف فضائی کارروائیوں سے رونما ہونا شروع ہوئی۔ امریکہ اور اس کے اتحادی واویلا کر رہے ہیں کہ روس کی فضائی کارروائیوں سے دہشت گرد گروہ داعش مضبوط ہو گا۔مگر کیسے؟غیر جانبدار تجزیہ کار کہتے ہیں کہ روس کی جارحانہ فضائی کارروائیوں اور پھر روسی فضائیہ کی مدد سے شامی فوج کی پیش قدمی نے داعش کو زبردست عسکری و مالی نقصان پہنچایا ہے۔امریکہ کو شکایت ہے کہ روس بلا تخصیص معتدل و غیر معتدل دہشت گردوں کے خاف کارروائیاں کر ہا ہے۔ بے شک روس کی ان کارروائیوں سے امریکہ اور اس کے مسلم و غیر مسلم اتحادیوں کے مفادات پر زد پڑی ہے۔ کیا دہشت گرد اچھے اور برے بھی ہوتے ہیں؟ کیا ان میں اعتدال ہوتا ہے؟ اگر ان میں اعتدال ہو تو انھیں انتہا پسند ہی کیوں کہا جائے؟
سوال بڑا سادہ ہے،اسے لفظوں کے خواہ کتنے ہی حسیں پیرہن کیوں نہ پہنا دیے جائیں،داعش ہو یا طالبان،القاعدہ ہو یا النصرہ،الشباب ہو یابوکوحرام،احرارالہند ہو یا کوئی اور نام۔یہ سب دہشت گردانہ کارروائیوں میں ایک سے ہیں۔داعش نے البتہ جلدی کی اس کے مقابل القاعدہ نے اپنی توجہ افغانستان اور عراق پر مرکوز رکھی۔امریکی سابق رکن کانگریس کو یہ تو احساس ہے کہ داعش کو امریکہ و یورپ سے افرادی قوت مل رہی ہے مگر کیا امریکہ کے اس سابق رکن کانگرس نے کوئی ایسی تجویز دی کہ یورپ وا مریکہ سے داعش کے لیے جانے والی افرادی قوت کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ امریکہ اور اس کے مسلم و غیر مسلم اتحادی خطے کی ہیئت تبدیل کرنے کے لیے دہشت گرد گروہوں پر انحصار کر رہے ہیں۔داعش کے انسانیت سوز مظالم کے خاف دنیا بھر کے عدل پسند سراپا احتجاج ہوئے تو امریکہ و اس کے اتحادیوں نے بھی داعش کو دہشت گرد مان لیا مگر القاعدہ کو جس کی خاطر امریکہ نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، جس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں آ کر مارا،اور جس کی دوسرے و تیسرے درجے کی قیادت کے لیے یمن و پاکستان میں ڈرون حملے بھی کیے، اب اسی القاعدہ کو امریکہ اسلحہ بھی دے رہا ہے اور اسے’’ معتدل دہشت گرد تنظیم‘‘ بھی مان رہا ہے۔امریکی سابق رکن کانگرس نے جرات کا مظاہرہ کیا اور تسلیم کیا کہ داعش کی تخلیق امریکہ نے کی۔رول پال نے مشرقِ وسطی میں جاری داعش کے درندوں کی درندگی کے خلاف ایران کے کردار کی بھی تعریف کی۔لیکن وہ کوئی ایسا منصوبہ نہ دے سکے جس سے ’’معتدل و غیر معتدل ‘‘کی تمیز کیے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔داعش کے دہشت گرد جس طرح مسلمانوں کے گلے کاٹتے ہیں القاعدہ والے بھی اسی طرح یہ کام سر انجام دیتے ہیں۔دونوں کی تخلیق امریکہ نے اپنے مفادات کے لیے کی۔ دونوں خود کو اسلام کی نمائندہ تنظیم کہتے ہیں۔مگر کیا ایسے قاتل، امن،سلامتی اور رواداری کی تعلیمات دینے والے اسلام کے نمائندے ہو سکتے ہیں؟داعش میں نوجوانوں کی تیز رفتار شمولیت کا ایک پہلو ’’جہاد النکاح‘‘ کا فتویٰ بھی ہے۔آخری تجزیے میں روس سارے دہشت گردوں سے ایک سا سلوک کرے گا ،جبکہ امریکہ اپنے اتحاد سمیت داعش کے خلاف دکھاوے کے فضائی حملوں کے ساتھ ساتھ معتدل دہشت گردوں کے لیے آسمان سے اسلحہ بھی گراتا رہے گا۔روس اگر اپنی کارروائیوں میں مزید تیزی لاتا ہے تو عین ممکن ہے کوئی نیا گروہ کسی نئے نام سے جنم لے لے۔داعش والے جس طرح ببچوں ،عورتوں، بوڑھوں اور نوجوانوں سے انسانیت سوز سلوک کر رہے ہیں بالکل اسی طرح القاعدہ و النصرہ والے بھی اپنی دحشت ناکی کی بنیاد’’ ظواہر پرستی‘‘ پر رکھے ہوئے ہیں۔صرف مشرقِ وسطی ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کا امن اس وقت داؤ پر لگا ہوا ہے۔دنیا اگر دہشت گردی کے خاتمے میں سنجیدہ ہے تو پھر اسے امریکہ کے دوہرے معیار کی مذمت کرنی چاہیے۔{jcomments on}
94