قارئین سے معذرت طلب کہ ان سے ربط نہ رکھ سکا،بہت سے موضوعات انگڑائی لے کر اٹھے اور پھر سرما کی دھند میں غائب ہو گئے ۔میں مگر ہسپتال میں بیماری سے لڑ رہا تھا۔ شدید بخار میں مجھے جھٹکے لگے جس کے باعث میری زبان بھی شدید زخمی ہوئی،راولپنڈی کے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں داخل رہا ازاں بعد سی ایم ایچ ہسپتال راولپنڈی میں داخل ہوا۔مختلف قسم کے میڈیکل ٹیسٹ اور ہسپتالوں کی فضا نے ایک لکھاری کو اور زیادہ رنجیدہ کر دیا۔ڈاکٹرز نے ایک ماہ مکمل آرام کا مشورہ دیا۔ یہ سطور بھی بستر پہ نیم دراز پڑے ہوئے لکھ رہا ہوں۔باچا خان یونیورسٹی پہ علم دشمنوں کے حملے نے مجھے بہت دکھ دیا۔ایک صحافی دوست نے فون کر کے میری خیریت دریافت کی اور پھر بڑے دکھی انداز میں اس حملے کی اطلاع دی، گھر والوں سے ٹی وی آن کروایا تو سارے ٹی وی چینلز اس وحشت کی کہانی سنا رہے تھے۔ اس حملے کی کڑیاں افغانستان سے ملائی جا رہی ہیں۔بے شک افغانستان سے دہشت گردی کو پاکستان کے لیے آپریٹ کیا جاتا ہے مگر جو لوگ استعمال ہو رہے ہیں وہ کون ہیں؟مقامی سہولت کاروں کو جب تک ختم نہیں کیا جائے گا اس طرح کے افسوس ناک حملے ہوتے رہیں گے۔میں نے اسلام ٹائمز کو کھولا تو دیگر سلگتے ہوئے موضوعات کے ساتھ ساتھ داعش کے ایک’’ بیانیے‘‘ پر نظر پڑی تو میں وہیں رک گیا۔وہ ’’بیانیہ ‘‘کیا ہے؟ آئیے ایک نظر اسے دیکھتے ہیں۔
’’شدت پسند دہشت گردتنظیم داعش نے یورپ پر حملہ آور ہونے کیلئے ماسٹر پلان تیار کر لیا ہے۔ اس ماسٹر پلان کو دجال کی آمد اور ہرمجدون (عظیم جنگ)کے سلسلے کی کڑی کہا جا رہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش)نے لوگوں پر اپنے نظریات تھوپنے کیلئے سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب کا اجرا کیا ہے جس میں دجال کی آمد اور ہرمجدون سے قبل یورپ پر حملے کو ماسٹر پلان کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ بوسٹن یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر رچرڈ لیں ڈس کا کہنا ہے کہ داعش یورپی سوسائٹی میں خلل ڈالنا چاہتی ہے۔ یورپ میں ایسا اقدام اٹھانے کیلئے ان کے پاس بہت سے مواقع موجود ہیں کیونکہ یورپی عوام کسی بھی تصادم کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ داعش آئندہ چند سالوں تک مشرق وسطیٰ میں اپنی خود ساختہ اسلامی ریاست کے قیام کا خواب دیکھ رہی ہے۔ داعش کا ماننا ہے کہ تیسری جنگِ عظیم مغرب، روس اور ایران کے درمیان شروع ہوگی جس کے بعد قیامت کی شروعات کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ داعش کی کتاب میں لکھا ہے کہ جیسے ہی اس جنگ میں روس اور ایران کو شکست فاش ہوگی، ہمار اگلا ٹارگٹ روم ہوگا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق داعش کی کتاب میں لکھا ہے کہ یورپ میں رہنے والے مسلمان ہی ان ملکوں کے خلاف بغاوت پر اتر آئیں گے۔ ایسے یورپی مسلمان جو اس وقت داعش کا حصہ ہیں انھیں ٹریننگ دے کر واپس بھیجا جائے گا۔ تاہم جیسے ہی داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کا حکم ملے گا یہ یورپ بھر میں حملے شروع کر دیں گے اور با لآخر روم پر قابض ہو جائیں گے۔ داعش کا ماننا ہے کہ روم پر قبضے کے سات ماہ بعد دجال کی آمد ہوگی‘‘۔
کیا ابو بکر البغدادی از خود کسی دجال سے کم ہے؟ کیا ملا عمر کسی دجال سے کم تھا؟ کیا اسامہ دجال کا ایک کردار نہ تھا؟داعش نے اپنے کتابچے میں تیسری جنگِ عظیم کی شروعات کی نہ صرف بات کی ہے بلکہ وہ ماسٹر پلان بھی جاری کیا ہے جس کے تحت داعش کے دہشت گرد معصوم انسانوں کے خون سے ہولی کھیلیں گے۔داعش نے کہا ہے یورپ پر حملوں کے لیے وہ اپنے ان جہادیوں کو استعمال کرے گی جو یورپ کے شہری ہیں اور اس وقت داعش کا حصہ ہیں اور انھیں ٹریننگ دے کر واپس بھیجا جائے گا۔مجھے یہ سطور پڑھ کر حیرت ہوئی،بے شک قیامت آ کر رہے گی مگر کیا اسی طرح جیسے داعش والے لانا چاہتے ہیں؟امریکہ سمیت یورپ میں کروڑوں مسلمان آرام دہ زندگی گذار رہے ہیں،نہ صرف آرام دہ زندگی بلکہ امریکی و یورپی سماج اور معیشت کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کا کلیدی کردار بھی ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یورپی مسلمان داعش کے’’ بیانیے‘‘ سے متاثر ہوئے اور ترکی کے راستے شام یا پھر عراق میں داخل ہوئے۔اس میںیقیناًیورپ کی کمزوریاں ہیں کہ اس کے شہری داعش میں نہ صرف شامل ہو رہے ہیں بلکہ وہاں سے ٹریننگ لے کر واپس بھی آرہے ہیں۔ہمیں ماننا پڑے گا کہ پورے مشرقِ وسطیٰ سمیت افریقی پٹی میں ایک غیر اعلانیہ جنگ شروع ہو چکی ہے ،افغانستان،شام،یمن اور عراق میں یہ جنگ اعلانیہ جاری ہے۔جبکہ یورپ میں ہونے والے دھماکے یا امریکہ میں سیاہ فارموں کا پولیس کے ہاتھوں قتلِ عام در اصل جنگ کی ہی شکل ہے۔داعش اس شکل کو مزید بھیانک کرنا چاہتی ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ داعش ہی وہ واحد دہشت گرد تنظیم ہے جس کے مالی و عسکری اثاثے دیگر دہشت گرد تنظیموں سے زیادہ ہیں۔پھر ہمیں یہ بھی تسلیم کر لینا چاہیے کہ امریکہ ،سعودی عرب،ترکی و قطر سمیت کچھ ممالک تو ہیں جنھوں نے مل کر داعش کی تخلیق کی اور اس کی پرورش کا سامان کیا۔داعش سے ٹریننگ لے کر واپس یورپ آنے والے ’’جہادی‘‘ امریکہ و یورپ میں بسنے والے امن پسند مسلمانوں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بنتے جا رہے ہیں۔ حالانکہ ابھی گذشتہ برس ہی یورپ بالخصوص جرمنی نے کئی لاکھ مسلمانوں کو انسانی ہمدردی کی بنا پر پناہ دی ہے،داعش مگر انسان دوستی کے ہر نشان کو مٹا کر اپنے وحشیانہ تصور کو عام کرنا چاہتی ہے مگر آخری فتح انسان دوستوں کی ہی ہو گی۔قیامت کب اور کیسے آئے گی؟ اس کا فیصلہ ابو الدہشت گرد ابو بکر البغدادی نے نہیں کرنا نہ ہی یورپ میں خود کش دھماکے کر کے قیامت کی راہ ہموار کی جائے گی۔یہ جہالت کی باتیں ہیں جو ابو بکر البغدادی اور اس کے پیروکاروں کو ہی زیبا ہیں۔{jcomments on}
121