اسلام دینِ فطرت ہے اور بچے فطرت کا انمول شہکار۔دہشت گردوں کا ذہن سازی کے لیے مگر آسان ہدف یہی بچے ہوتے ہیں۔جنت کا لالچ،حوروں سے ملاقات کا طریقہ،دودھ کی نہریں ،محلات کی داستانیں اس سب سے بڑھ کر دو وقت کی روٹی اور رہنے کو چھت۔ایک غریب آدمی کے بچے کو اس سے بڑھ کر کیا چاہیے کہ دنیا میں وہ آرام دہ مدرسے میں رہے گا اور آخرت میں حوروں کی بانہوں میں۔یہ تصور ہی انسان کو بے خود کرنے کے لیے کافی ہے۔نیم خواندہ گھرانے،قدامت پرست اور غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے والے اپنے بچوں کے روایتی تعلیمی اخراجات جب برداشت نہیں کر پاتے تو انھیں مدرسے کی راہ دکھاتے ہیں۔والدین کی بہرحال نیت یہی ہوتی ہے کہ ان کا بچہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کے لیے بھی نہ صرف آخرت میں نجات کا باعث بنے گا بلکہ دنیا میں بھی بالغ ہونے تک والدین پربوجھ نہیں بنے گا۔بلاشبہ مدارس دینی تعلیم کا منبع ہیں مگر ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ روس کے افغانستان پر حملے کے بعد ایک خاص مکتبہ ہائے فکر کے مدارس کی زنجیر صرف اس لیے بنائی گئی کہ وہاں سے ’’جہادی ‘‘تیار کر کے امریکی ایما پر لڑے جانے والے’’ جہاد ‘‘کو کمک پہنچائی جاتی رہے۔بے شک بعض مدارس آج بھی اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو سیکیورٹی ادارے ان پہ چھاپے کیوں مارتے ہیں؟ اور وہاں سے مشکوک افراد کی گرفتاری کیوں عمل میں لائی جاتی ہے؟نیشنل ایکشن پلان کے بعد مگر مدارس والے بھی قدرے محتاط ہوگئے ہیں۔اب وہ اپنے’’ مہمانوں‘‘ کی میزبانی اور طرح سے کرتے ہیں اور’’ مہمان‘‘ کو مدرسے میں ٹھہرانے کے بجائے کسی گھر یا فلیٹ میں پہنچا دیا جاتا ہے۔گذشتہ سے پیوستہ روز راولپنڈی میں داعش کا جو دہشت گرد اپنے سہولت کاروں اور گھریلو خواتین کے ساتھ پکڑا گیا یہ دہشت گردوں کی بدلتی ہوئی حکمتِ عملی کا عملی نمونہ ہے۔بچے اور عورتیں بہرحال پروپیگنڈا کا جلدی شکار ہوتے ہیں۔القاعدہ کی تشکیل کے دوران عرب مبلغ پوری دنیا میں عموماً اور پاکستان و مصر وغیرہ میں بالخصوص’’ جہادی‘‘ تبلیغ کو آیا کرتے تھے۔ ان کا ہدف نوجوان نسل ہوا کرتی تھی۔ ایمن الظواہری مصر کی ایک مسجد سے ہی ایک عرب مبلغ کی جہادی تبلیغات سے متاثر ہو کر اسامہ بن لادن کے کیمپ میں شامل ہوا تھا ،پشاور آیا اور پھر افغانستان میں کمانڈری کرنے لگا۔سوال مگر یہ ہے کہ القاعدہ ،الشباب،بوکوحرام،طالبان کی مختلف شاخیں جو افغانستان و پاکستان میں بروئے کار ہیں،ان سب کی موجودگی میں ایک نئی وحشت کو جنم دینے کی کیا ضروت تھی؟بے شک سامراجی طاقتوں کو انتہائی سخت گیر اور زیادہ وحشی گروہ کی ضروت تھی جو منظم بھی ہو اور تکفیر کرنے میں بھی دیگر گروہوں سے زیادہ متحرک ہوداعش کی تخلیق کیوں ہوئی؟ اس کے کیا مقاصد تھے؟آئندہ یہ وحشت ناک گروہ اسلام کے نام پہ کتنی دیر زندہ رہ پائے گا؟روس کی فضائی کارروائیاں اس گروہ کو کس حد تک زخم لگا سکیں گی؟ بہت سے سوالات ہیں۔کئی ایک باتیں مگر طے،یہ گروہ شام سے نکل کر عراق اور عراق سے نکل کر افغانستان تک تو آچکا ہے،پاکستان میں داعش کے ہمدرد نہ صرف موجود ہیں بلکہ گذشتہ برس کراچی اور ٹیکسلا کے علاقوں میں داعش کے حق میں وال چاکنگ بھی کی گئی تھی۔میرا سوال مگریہ ہے کہ اگر داعش پاکستان میں نہیں یا اس کے سہولت کار پاکستان میں موجود نہیں تو پھر ایک ایسی تنظیم جو شام اور عراق میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں کر رہی ہے اس پر پاکستان میں پابندی کیوں لگائی گئی؟اس سادہ سا سوال کا جواب بھی بڑا سادہ ہے۔ پاکستان میں داعش پر پابندی اس لیے لگائی گئی کہ سیکیورٹی اداروں کو یہ یقین ہو چلا ہے کہ داعش کے سہولت کار اور اس تنظیم کی طرف نوجوانوں کو راغب کرنے والے اب پاکستان میں موجود ہیں۔ لامحالہ شام و عراق سے البغدادی،الظواہری یا کوئی اور عرب اپنے وحشیانہ قافلے کے ساتھ تو یہاں نہیں آئے گا۔یہی ضربِ عضب کے شکست خوردہ دہشت گرداپنی وحشیانہ بقا کے لیے داعش کا جھنڈا اٹھائیں گے۔ اگرچہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کئی ایک بار یہ بات دہرا چکے ہیں کہ پاکستان پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دیں گے مگر یہ امر بھی واقعی ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کا سابق شاعرانہ سے نام والا ترجمان احسان اللہ احسان داعش کے البغدادی کی بیعت کر چکا ہے۔ بے شک احسان اللہ احسان کا یک دھڑا بھی ہو گا۔پاکستان کو کئی ایک چیلنجز کا سامنا ہے۔ سب سے اہم مگر اندرونی اور داخلی خطرہ ہے جسے پاک فوج نے اپنے عزم اور ضربِ عضب سے بہت کم کر دیا ہے۔ مگر مشاہدہ کہتا ہے کہ داعش کے ستم گر سر اٹھاتے رہیں گے۔ملک اسحاق کی موت کا ردعمل محرم الحرام میں سامنے آسکتا ہے جیسا کہ سیکیورٹی اداروں نے اس خدشے کا اظہار کیا۔جہلم سے بھی داعش کا یک ہمدرد بلکہ داعش کے لیے بھرتی کرنے والا شخص گرفتار کیا جا چکا ہے۔آخری تجزیے میں داعش شام سے لے کر عراق اور افغانستان سے لے کر پاکستان و نائیجیریا اور یورپ تک ،افرادی قوت کے لیے اپنی توجہ عورتوں اور نو عمر افراد پر مرکوز کیے ہوئے ہے۔عورتیں کیوں؟ یہ داعش کے دہشت گردوں کے لیے ’’جہاد النکاح‘‘ کے کام آتی ہیں،اور نو عمر ذہن جلدی جنت و حور کے لالچ میں آکر مسلمانوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔فطرت مگر انسان کو وحشی پن کی اجازت نہیں دیتی۔داعش والے اپنی نام نہاد ایک وحشیانہ خلافت کا اعلان کر چکے ہیں، ان کی مشکل یہ ہے کہ اس وحشیانہ نام نہاد خلافت کا دائرہ کیسے بڑھائیں؟اس کے لیے وہ جدید طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نوجوانوں کو راغب کیا جا رہا ہے۔ایک نوجوان کے لیے پیسے اور جنسی تسکین کا لالچ بڑی سکون آور چیز ہوتی ہے۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ ساری کی ساری دنیا بشمول کلمہ گو مسلمانوں کے مرتد،کافر اور مشرک ہیں اور ان کا قتل داعش کے جنگجوؤں پر واجب ہے۔عالمی طاقتیں مگر اپنی ضروریات کو بھی دیکھتی ہیں۔امریکی اتحاد میں اڑنے والے جنگی طیارے ایک برس سے زائد عرصہ گذرنے کے باوجود عراق میں داعش کو کوئی قابلِ ذکر نقصان نہیں پہنچا سکے ۔البتہ روس نے شام میں30ستمبر سے اپنے شروع کیے جانے والے فضائی حملوں میں داعش سمیت ان تمام گروہوں کی خبر لی ہے جو القاعدہ اور النصرہ وغیرہ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔امریکہ کو تکلیف ہے کہ روس کے فضائی حملوں سے داعش مضبوط ہو رہی ہے؟کیسے؟ اوباما انتظامیہ تا حال اس کی وضاحت نہ کر سکی۔البتہ اوباما کی منطق عجیب ہے۔اہم سوال مگر یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی داعش کے خلاف لڑنے والے معتدل مزاج دہشت گردوں کو اسلحہ پہنچا رہا ہے۔ مگر کیوں؟ دوغلی پالیسی اور کس چیز کا نام ہے؟ کیا دہشت گر’’د معتدل‘‘ بھی ہوا کرتے ہیں؟حیرت ہوتی ہے اخباری دانش وروں پر۔جانور جیسے جانور ہوتا ہے اسی طرح دہشت گرد بس دہشت گرد ہوتا ہے اور دہشت گرد کا کام گردنیں کاٹنا ہی ہوا کرتا ہے۔ کیا القاعدہ و النصرہ والے خود کش دھماکوں کے بجائے موسیقی سناتے ہیں؟اخبار نویس کا خیال ہے کہ خطے میں عالمی سامراجی طاقتوں کو ایسے دہشت گرد گروہوں کی ضروت ہے جو داعش جتنے وحشت ناک تو نہ ہوں مگر ہوں’’جہادی‘‘ اور اپنے تکفیری رویوں میں داعش سے کم بھی نہ ہوں۔{jcomments on}
88