90

خطے کی عسکری انگڑائی میں روس کا کردار!/طاہر یاسین طاہر

مذہب کی اپنی من پسندانہ توضیحات اور ترجیحات بہر حال ایک وحشت ناک معاشرے کو جنم دیتی ہیں اگرچہ اس وحشت ناکی سے معاشرے کا ایک بڑا اور قابلِ ذکر حصہ نالاں ہوتا ہے مگر وہ’’ فتوے ا‘‘ور بندوق کے سامنے بے بس بھی ہوتا ہے۔ عالمی سامراجی طاقتیں البتہ اپنے مقاصد کے لیے کہیں انتہا پسندوں اور دہشت گردوں پر حملہ آور ہوتی ہیں تو کہیں انھیں اپنے مقاصد کے لیے یوں استعمال کرتی ہیں کہ وقت کا دھارا سامراج اور دہشت گردوں ،جو اپنی دانست میں جہاد کر رہے ہوتے ہیں کو ایک جگہ لا کھڑا کرتا ہے۔ہم نے ماضی قریب میں افغانستان کا نام نہاد جہاد بھی دیکھا جہاں عرب جنگجو اور امریکہ ایک پیج تھے۔امریکہ کو ان دنوں کا جہاد اس قدر قابلِ تعظیم تھا کہ نام نہاد جہا دیوں کے لیے اسلحہ،ڈالر اور امریکی ویزہ قابلِ ذکر تحائف تھے۔ امریکہ اپنی چال چل رہا تھا اور اس کا مقصد روس کو شکست دینا تھا۔ بد قسمتی سے ان دنوں ایک آمر پاکستان کا حکمران تھا،اسے بھی امیر المومنین بننے کا اسی قدر شوق بلکہ جنون تھا جتنا کہ ملا عمر مرحوم کو۔تاریخ کے طالبعلم البتہ اس راز کو پا لیں گے کہ ان ایام میں امریکہ نے کس طرح اپنے مفادات کے لیے دنیا بھر کے جہادیوں کا’’ اڈا ‘‘پاکستان بنا دیا تھا۔ ایک خاص فکری ’’رویے‘‘ کو اسلام کے نام پر رواج دیا گیا۔ کیا صرف امریکہ اکیلا یہ کام کر رہا تھا؟ عرب ریاستیں اور امریکہ کے یورپی اتحادی امریکہ کے ساتھ ساتھ تھے اور پاکستان فرنٹ لائن اتحادی۔نائن الیون کا سانحہ ہوا تو امریکہ ایک بار پھر عالمی دہشت گرد اسامہ بن لادن کی تلاش کو نکل کھڑا ہوا۔ سوال مگر یہ ہے کہ اگر ملا عمر مرحوم اسامہ بن لادن اور دیگر مطلوب دہشت گردوں کو امریکہ کے حوالے کر دیتا تو کیا پھر بھی امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرنا تھا؟میرا خیال ہے کہ وہ پھر بھی ایسا کرتا ۔اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سے اہم ترین مشرقِ وسطی کی ہیئت کی تبدیلی اور اس خطے میں انتہا پسندی کو رواج دے کر اپنے مفادات کا حصول تھا۔میں شعوری طور پر یہ سمجھتا ہوں اور کئی ایک مواقع پر اپنے کالموں میں لکھا بھی کہ امریکہ اگر چاہتا تو چند ہفتوں یا دو تین ماہ میں افغانی طالبان کو ٹھانے لگا کر پورے افغانستان پر قبضہ کر لیتا مگر یہ امریکہ کا مقصد نہیں تھا۔ وہ یہاں ایک چنگاری جلائے رکھنا چاہتا ہے۔ تاریخ کے طالبعلم جانتے ہیں کہ طاقت کے اپنے اصول اور ضابطے ہوتے ہیں۔امریکہ مگر ایک طرف افغانوں پر فضائی حملہ کرتا تو دوسری پرواز میں امریکی ہیلی کاپٹر افغانوں کے لیے روٹی راشن پھینک رہے ہوتے۔مصحفی کا مصرع بہت یاد آ رہا ہےوہی قتل بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹاافغانوں کو ایک نعرے نے بہت برباد کیا۔ ’’کہسار باقی ،افغان باقی‘‘ کہسار تو شاید باقی ہیں افغان مگر در بدر۔کوئی گھرانہ ایسا نہیں جس کے افراد جنگی جنون کی بھینٹ نہ چڑھے ہوں۔چڑھتے بھی کیوں نہ؟پیٹھ تھپکانے کو ایک دنیا موجود تھی۔90کی دھائی میں ماسکو کے انہدام کے بعد امریکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوا اور افغانوں کے کئی ایک کمانڈروں کو جدید اسلحے اور ڈالروں سمیت ان کے حال پر چھوڑ کر چلتا بنا۔نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ وہ جنگجو جو ایک’’ مقدس جہاد ‘‘کا حصہ بنے ہوئے تھے جن میں چیچن،ازک،عرب،پاکستانی اور دنیا بھر کے جنونی شامل تھے،بجائے افغانستان کی تعمیرِ نو کرنے کے اپنی اپنی قبائلی روایات اور اپنے اپنے قبیلے کی برتری کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے ۔خانہ
جنگی اس حد تک بڑھی کہ ملا عمر کو’’ لانچ‘‘ کیا گیا۔ جی ہاں’’ لانچ‘‘ کیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ وہ افغانستان میں امن لے آیا۔کیا امن اس بلا کا نام ہے کہ خوف پیدا کر دیا جائے؟ اپنے مخالفین کو سرِ بازار بہیمانہ طریقے سے قتل کر دیا جائے؟راوی لکھتا ہے کہ ایک اکیلی عورت قندھار سے کابل تک کئی تولے سونا پہن کر سفر کر سکتی تھی مگر اسے چوری یا آبرو ریزی کا ڈر نہ تھا۔ممکن ہے ایسا ہوا بھی ہو کیونکہ افغان طالبان نے جگہ جگہ اپنی چیک پوسٹیں قائم کی ہوئی تھیں اور چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا اور زنا کاری کی سزا سنگ ساری قرار پائی تھی۔ کوئی شرعی کو نسل بھی جو شریعت سے زیادہ اپنے فہم اور قبائلی روایات کے پیشِ نظر فیصلے کیا کرتی تھی۔ میرا سوال مگر یہ ہے کہ انتہائی قدامت پرست معاشرے میں جہاں ملا عمر اور اس کے طالبان نے عورتوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی وہاں کیا ایک عورت کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ بغیر کسی’’ محرم‘‘ کے سفر کر ے؟ کیا کسی عورت کو یہ جرات تھی کہ وہ اکیلی افغانستان کی سڑکوں کی خاک چھانتی رہے؟افغان روایات،نیم مذہبی تعلیمات،ایک خاص زاویہ فکر سے دین کی تعبیر اور اجتہاد کے بند دروازے۔ان چیزوں نے مل کر جہاد کے بجائے تکفیریت کا راستہ زیادہ کشادہ کیا۔ جہاد کے حوالے سے علمائے اسلام کی رائے مختلف ہے۔ بیشتر کا کہنا ہے کہ جب ایک اسلامی ریاست قائم ہو چکی ہو یا آپ ایک ریاست کے تسلیم شدہ شہری ہوں تو پھر جہاد کا فیصلہ ریاست کا ہو گا نہ کہ مختلف مسلح گروہ اپنی دینی تفہیم کو پورے معاشرے پر مسلط کرنے کے لیے ’’الجہاد الجہاد‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے سامنے آنے والے ہر انسان کو قتل کرنا شروع کر دیں گے۔اسلام تو غیر مسلموں کے جان و مال کے تحفظ کی بھی تلقین کرتا ہے۔ بوڑھوں،بچوں عورتوں،حتیٰ کہ اسلام دورانِ جنگ پھل دار درختوں کو بھی نقصان پہنچانے سے منع کرتا ہے۔ وہ مگر جو خود کش دھماکے کرتے ہیں کیا انھیں اسلام کا نمائندہ کہا جا سکتا ہے؟ وہ جنھوں نے القاعدہ،داعش،النصرہ،کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان اور اس کے ذیلی گروہ تشکیل دیے وہ کسی بھی طرح انسان کہلانے کے مستحق ہیں؟ کہ ان کی بربریت سے آج انسانیت نوحہ کناں ہے اور اسلام کا چہرہ زخم زخم۔آج عراق سے شام اور شام سے نائیجریا،ترکی،بحرین،افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائی کرنے والے کون سا اور کس کی ایما پر جہاد کر رہے ہیں؟افغانستان میں امریکہ نے وہی کیا جو وہ چاہتا تھا۔ ایک کٹھ پتلی حکومت اور طالبان کے مسلح گروہ۔تا کہ وہ ہمہ وقت ایک دوسرے کا قتال کریں اور امریکہ و اس کے اتحادیوں کو یہاں قیام کامستقل موقع میسر رہے۔نیٹو ایک بہت بڑی طاقت کا نام ہے۔ اگر نیٹو والے چاہتے تو افغانستان میں امن قائم ہو سکتا تھا۔ مگر ’’کہسار باقی‘‘ والے افغان ایک بار پھر خانہ جنگی میں الجھ چکے ہیں اور طالبانی جرائم ویسے ہی ہیں جیسے 90کی دھائی میں تھے۔بھارت کی ’’را‘‘ افغانستان میں اس االاؤ کو بھڑکائے رکھے گی جسے امریکہ و نیٹو نے نائن الیون کے بعد جلایا ہے۔افغان صدر اشرف غنی کے منہ میں بولتی ہوئی نریندر مودی کی زبان اس امر کی گواہ ہے کہ مشر قِ وسطی کی ہیئت کو تبدیل کرنے کے لیئے عالمی سامراجی طاقتیں کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں، مگر ٹھہریے،شام کے بحران میں روس کا عسکری ظہور خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کی امید افزا کوشش ہے۔ماسکو، کو نیٹو اور امریکہ کی طرف سے انتباہ بھی ہے لیکن روس حساب برابر کرے گا او’’ر معتدل و غیر معتدل‘‘ ہر قسم کے دہشت گردوں سے ایک جیسا سلوک کر کے شام کے بحران کو سیاسی حل کی طرف لائے گا۔ سوال مگر یہ ہے کہ ملا منصور بھی اشرف غنی سے مذاکرات کرے گا یا ’’طالبانی شریعت‘‘ کے نفاذ کے لیے افغانستان کو’’ اماراتِ اسلامیہ افغان ‘‘بنانے کے لیے چند باقی بچےافغانوں کو بھی قتل کرتا رہے گا؟{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں