تاریخ اسلام کے عروج و زوال کی داستان اہل اسلام کے کردار، اعمال اور تدبیر خداوندی سے منسلک ہے۔ اسلام جہاں آج تاریک دور سے گزر رہا ہے وہیں اس کے ماضی میں عروج کی انتہا اور اوج کمال کے آفاق سے روشنیاں نظر آتی ہیں۔ غار حرا سے جس پیغام فلاح آدمیت کی تحریک کا آغاز ہواوہ آج روے60 ارضی کے ہر گوشہ سے 60 توحید و رسالت پر ایمان اور نیابت خداوندی کی عظمت کی داعی ہے۔فلاح انسانیت اور تبلیغ اسلام ہر دور اور زمانے میں ایسی خدارسیدہ ہستیوں کی محتاج رہی ہے جنہیں ہم طبقہ اولیا کے نام سے جانتے ہیں۔کروڑوں انسانوں کے ہجوم میں ایسے حق شناس افراد ہمیشہ موجود رہے ہیں جن کا وجود ہی اسلام کی ترویج اور اشاعت کا ذریعہ رہا ہے۔بر صغیر پاک و ہند کا خطہ اس اعتبار سے بڑا زرخیز ہے کہ یہاں ترویج دین متین اولیا اور صوفیا کے ذریعے عمل میں آئی ، یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے قرب و جوار میں ہر جگہ صوفیا ء کے آستانے، خانقاہیں اور مزارات نظر آتے ہیں ۔اس خطہ کے باسیوں نے اولیاء کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر دعوت دین قبول کی اور ان کی نسلوں میں صوفیا ء کا ادب اور ان کی صحبت کی تمنا نہ صرف زندہ رہی بلکہ آج بھی یہاں کے افراد کی قلبی و ذہنی آسودگی اور ہدایت کا ذریعہ بن رہی ہے۔خطہ پوٹھوہار پر بہت کثیرصوفیا اور اولیا نے ڈیرے ڈالے ہیں اور یہاں بسنے والی آبادی کو اسلام سے روشناس کرایا۔رواں ماہ اور آنیوالے ماہ میں ایسے اولیا کی درگاہوں پر عرس اور ثقافتی میلوں کے مناظر دیکھنے میں ملتے ہیں۔ان اعراس اور میلوں میں جہاں ایک طرف اولیا کو خراج تحسین پیش کیا جا تا ہے وہیں بہت سارے ثقافتی رنگ جیسے محفل شعر خوانی، قوالی اور دیگر کئ اقسام کے کھیل تماشے کیے جاتے ہیں جن کا صوفیا کی زندگی سے دور سے واسطہ نہیں ہوتا۔صحتمندانہ سرگرمیوں میں حرج نہیں مگر صوفیا کے عرس درحقیقت اہل دنیا کو اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ اللہ کے ولی نے جس طرح خدا کی محبت میں مستغرق زندگی بسر کی اس کی پیروی کی جاے60۔صوفیا وہ گروہ صالحین ہے جن کا مقصد حیات معرفت الٰہیہ اور عشق رسالت مآپ ﷺ ہے۔صحابہؓ و اہل بیعتؓ اطہار کے بعد اسی گروہ مومنین کے وسیلے سے اسلام کا ظاہر و باطن آنے والی نسل مسلماناں کو منتقل ہوا۔شریعت کی تعلیمات، مدارس، کتب، علما و تلامذہ کے ذریعے سنت متواترہ بن کر محفوظ رہیں اور منتقل ہوتی رہیں جبکہ اسلام کا باطن جسکا تعلق حسن خلق، محبت و عشق الٰہی،احسان، سلوک اور تقویٰ سے ہے، صوفیا کی بدولت ہی محفوظ رہا اور ان نفوس قدسیہ کی صحبت اختیارکرنے والوں کے ذریعے آگے بڑھتا رہا۔چنانچہ اسلام کی روحانی اساس اور باطنی فیض رسانی ان افراد امت کو عطا ہوئی جنہوں نے صوفیا اور اولیا کی صحبت سے تذکیہ و تصفیہ کے باعث معرفت خداوندی تک رسائی حاصل کی اوراپنے نفس پر قبضہ و اختیار حاصل کرکے اسے رضاے60 الٰہی کا پابند بنایا اور یوں اپنے حسن خلق سے مخلوق خداوندی کی نشان منزل تلک راہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔تاریخ اسلام ایسی بلندپا یہ شخصیات کے سوانح اور واقعات پر شاہد ہے۔ انہی ہستیوں کی ایک کثیر تعداد سر زمین ہند کو نو رایمان اور روشنی اسلام سے منور کرنے میں کامیاب رہی۔ہر دور میں جب بھی فتنہ و فساد کی آگ نے اسلام کے تناور درخت کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے چنگاریاں اڑای60یں، اولیا کے گروہ نے اسے آگے بڑھ کر سہارا دیا اور بھٹکتی انسانیت کو خالق کاحقیقی بندہ بنایا۔صوفیا کی مثال ایک حکیم اور طبیب کی طرح ہے، فرق صرف یہ ہے کہ حکیم نبض کی دھڑکن محسوس کر کے دوا تجویز کرتا اور مرض کا علاج کرتا ہے، جبکہ صوفی نبض کے بجاے60 دل کی دھڑکن سنتا ہے اور غافل قلب کاادراک کر کے اسے عشق الٰہی کی دوا سے صحتیاب کردیتا ہے۔ گویا صوفیا دلوں کی دنیا بدلنے والے ہیں۔ایک عالم، استاد، راہبر ہزار سرزنش کرکے کسی گنہگارکو صوم و صلوٰۃ کی طرف لا تا ہے مگر چونکہ دل کا علاج نہیں ہوا اس لیے استقامت کی دولت میسر نہیں، جبکہ صوفی پہلی نگاہ ہی دل پر رکھتا ہے اورآنیوالے کو صرف ایک ہی بات یا فعل کے ذریعے یوں خدارسیدہ کردیتا ہے کہ اس کے دل کی دنیا بدل جاتی ہے، پھر شریعت کے احکام پر عمل پیرا ہونا مشکل نہیں رہتا کیونکہ اب اس کے محرکات عشق کی کیفیت کا نتیجہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان ہستیوں کی بارگاہ میں طویل تقریریں اور مباحثے نہیں بلکہ عشق کی آگ میں مچلتے دیوانے کی ایک حکمت آموز تجلی ہزاروں کی کایہ پلٹ دیتی ہے۔خداے60 بزرگ و برتر کے یہ پسندید ہ لوگ صاحبان کشف و کرامت ہوتے ہیں، تاکہ اسلام کی حقانیت اور سربلندی کا سکہ منکرین پر بٹھایا جاے60 اور غافلوں کو ذاکر بنایا جاے60۔یہ وہی افراد ہیں جن کی کثرت نوافل انہیں محبت الٰہی کا مستحق بنا دیتی ہے اور خدا کی محبت کے باعث تمام ملای60کہ و نورانی مخلوقات، تمام انسان حتیٰ کہ نباتات و حیوانات بھی ان سے محبت کرتے اور سلام عقیدت پیش کرتے ہیں۔ کتاب و سنت میں ان ہستیوں کا بہت بلند رتبہ بیان ہوا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو عشق کے سمندر میں غوطہ زن ہیں اسلیے دنیا و مافیہا ان کے سامنے حیثیت نہیں رکھتے۔ دنیا میں رہ کر بھی یہ ایک لمحہ کیلیے اپنے محبوب سے غافل نہیں۔ پس جو خدا کے ہوے60 خدا ان کا ہوا اور یوں ساری مخلوق ان کے مطیع فرماں ہوئی۔مرید وہی ہے جو ارادت خداوندی کی طلب میں منزل تک رسائی کیلیے راہبر و مرشد کی صحبت اختیا ر کرتا ہے۔چونکہ مرشد معرفت الٰہی کا خزانہ رکھتاہے اس لیے وہ مرید کی راہنمائی کے قابل ہے۔اس مقصد کیلئے شیخ اپنے مرید کی کیفیت اور حال کا مشاہد ہ کرنے کے بعداس کی ہدایت او رراہنمائی کے لیے اہتمام کرتا ہے۔مرید کی طلب میں جتنا صدق ہوگا ،اتنا ہی وہ شیخ کی توجہ اور عنایت کا مستحق ہوگا۔یہی نظام ہاے60 تربیت و تزکیہ نفس تصوف کہلاتا ہے۔تصوف کے مفہوم میں صرف غیر آباد جگہ ڈیرے ڈال کر دنیا سے منقطع ہونا ہی تصوف نہیں بلکہ یہ تصوف کا جزو ہے۔ صوفیا کی خلوت نشینی سنت مطہرہ پر عمل کے ضمن میں ہے۔مرید کیلیے راستے کاا نتخاب مرشد کی مرضی پر منحصر ہے۔کہیں وہ اسے جنگل بیابان کا راستہ دکھاے60 گا اورکہیں کچھ اور۔مگر یہ تمام اقدام مرید کی بلندی درجات، حصول منزل اور اسے خلق کا راہبر بنانے اور فیض کا تقسیم کار بنانے کیلیے کیے جاتے ہیں۔ طریقت و تصوف کے نظام میں مروجہ کوئی بھی اصول سنت مصطفی ﷺ اور آثار صحابہ کرامؓ کے مخالف نہیں۔اگر کہیں ایسا ہے تو وہ اسلا م اور شریعت کے سوا کچھ اور ہے۔ آقاے60 دوجہاں ﷺ نے مکمل معاشرتی زندگی بسر کرتے ہوے60 ہر طبقہ انسانی کیلیے ہدایت و راہنمائی عطا فرمائی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر طبقہ انسانی سے منسلک افراد طریقت کی راہ اختیار کرکے منزل مقصود تک رسائی پا سکتے ہیں اور اسی وجہ سے صوفیا ء کا فیض ہر ایک کیلیے کارآمد ہے۔مریدین کے لیے حصول فیض اور توجہ طلبی کا بہترین ذریعہ ادب میں انہماک اختیار کرنا ہے کیونکہ طریقت کا سفر عشق کے بغیر ممکن نہیں اور جہاں عشق ہو وہاں ادب ضروری ہے، درحقیقت عشق سکھاتا ہی ادب ہے۔شیخ طریقت سے منسوب ہر شے کا ادب لازم ہے۔ ادب کی روشنی پیدا ہی وہیں ہوتی ہے جہاں محبت کا الاو60 روشن ہو، وگرنہ بناوٹی ادب بدون محبت نفاق کے مفہوم میں داخل ہے اور کاغذی گلوں کی مانند خوشبو سے محروم ہے۔خوش نصیب ہیں وہ افراد جنہیں بارگاہ خداوندی سے اپنے محبوبوں کی محبت میں انکی صحبت و قربت کا شرف عطا ہوا۔
دم عارف نسیم صبحدم ہے اسی سے ریشہ معنی میں نم ہے
اگر کو ل60ی شعیبؓ آے60 میسر شبابی سے کلیمیؓ دو قدم ہے۔
راقم الحروف:
صاحبزادہ قاضی محمد عمران
دربار عالیہ منورآباد شریف (ڈھڈیاں){jcomments on}
143