119

حکومت ہسپتالوں میں ادویات کی فراہمی کو ممکن بنائے

حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو صحت،تعلیم،روزگار سمیت تمام سہولیات مہیا کرے ۔ملکوں میں ایسا ہی ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں،عوام کے ووٹوں سے اقتدار کی کرسی تک پہنچنے والے عوام کو بھول ہی جاتے ہیں۔پنجاب میں گزشتہ کئی ماہ سے یہ خبریں باز گشت کر رہی ہیں کہ پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں مریض خوا ر ہو رہے ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں،ڈاکٹر جو مسیحا ہوتے ہیں وہ حکومتی پالیسیوں کے خلاف آئے روز ہڑتالیں کرتے ہیں۔ایمرجنسی بھی بند اور ہسپتال میں دوائیوں کا ملنا تو انتہائی محال ہے شہروں میں بنے ڈسٹرکٹ ہسپتال اور دیگر بڑے ہسپتالوں میں مریضوں کا رش ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس ایمرجنسی میں بھی اتنی لمبی لائنیں کہ دو سے تین گھنٹے ڈاکٹر تک پہنچنے میں لگ جاتے ہیں ۔تین گھنٹے لائن میں لگنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ابھی چائے کا وقفہ ہے اور اسکا وقت ایک گھنٹے کا ہوتا ہے ایسے میں مریض پر کیا گزرتی ہے کاش یہ حکومتی کارندے جانتے۔وزیر اعلیٰ پنجاب جو اپنے آپ کو خادم اعلیٰ کہلواتے ہیں وہ تو اپنا علاج انگلینڈ سے کرواتے ہیں۔وزراء سے بھی کوئی وزیر پنجاب کے کسی ہسپتال سے علاج نہیں کرواتا بلکہ پروائیویٹ یا بیرون ممالک کوترجیح دی جاتی ہے۔ایسے میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت کیسے بہتر ہو گی۔جب شہر کے سرکاری ہسپتالوں میں ادویات نہیں،ٹیسٹوں کے نام پر پیسے بٹورے جا رہے ہیں ،ڈاکٹر ٹائم پر مریض کو نہیں دیکھتے تو باقی پنجاب کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔حقیقت میں حکومت عوام کو تعلیم صحت اور روز گار کی بنیادی سہولتیں دینے میں ناکام ہوگئی ہے ۔سرکاری ہسپتالوں میں غریب کو ڈسپرین کی گولی نہیں ملتی جبکہ وزیر وں اور مشیروں کے بیرون ملک علاج پر قومی خزانے سے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں ۔ لاکھوں کروڑوں خرچ کرکے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ممبر بننے والے دانت درد کا علاج بھی سرکاری خزانے سے کرواتے ہیں ۔حکومتی نااہلی کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی اور صحت کے اداروں میں عام آدمی کا استحصال ہورہا ہے ۔حکومت ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل پیرا ہے اور کسی بھی شعبہ میں مستقل اور دیر پاانتظامات نہیں کررہی جس کی وجہ سے عام آدمی مایوسی اور محرومی کا شکار ہے ۔ شہریوں کو تعلیم صحت اور روزگار سمیت بنیادی سہولتیں فراہم کرنا حکومت کی اوالین ذمہ داری ہوتی ہے ،لیکن ہمارے ہاں کسی بھی حکومت نے اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے عام آدمی تعلیم صحت اور روزگار کے مسائل سے دوچار ہے ،امیر اور غریب کیلئے الگ الگ قوانین ہیں ۔امیروں کو زندگی کی تمام آسائشیں حاصل ہیں جبکہ غریب بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کیلئے مارا مارا پھرتا ہے لیکن اس کی آہ و فریاد پر کوئی کان نہیں دھرتا ۔ دوہرے معیار زندگی کی وجہ سے امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے اور بجاطور پر عام آدمی اپنی محرومیوں کا ذمہ دار مقتدر طبقہ کو سمجھتا ہے ، شاہانہ زندگی گزارنے والے وزیروں مشیروں کاتو قومی خزانے سے علاج ہوتا ہے جبکہ وہ لوگ جو دووقت کے کھانے کیلئے پریشان رہتے ہیں ان کیلئے علاج کی سہولتیں فراہم کرنے کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا اگر ضلع راولپنڈی کو ہی دیکھا جائے تو اس وقت یونین کونسل کی سطح پر چلنے والے ایک سو قریب بنیادی مرکز صحت موجود ہیں جہاں سٹاف تو کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے لیکن اگر ان مراکز صحت کی عمارت کا مشاہدہ کیا جائے تو اکثریت کی حالت انہتائی خستہ حال ہوچکی ہے جس میں مریض تو درکنار عملہ کی زندگیاں داو پر لگی ہوئی ہیں جس کی بناء پر سٹاف عمارت کے باہر ہی بیٹھ کر مریضوں کا علاج ومعالجہ کرنے پر مجبور ہے محکمانہ طور ہر ماہ میں ہسپتال کی صورتحال کے بارے میں رپورٹ ضلعی انتظامیہ اور پنجاب حکومت کو ارسال ہوتی ہیں لیکن عمارتوں کی نئے سرے تعمیر کیلئے کوئی فنڈز مختص نہیں کیے جارہے ہیں اس ساتھ ساتھ ادویات کی صورتحال بھی انہتائی مخدوش ہے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس راولپنڈی سے بنیادی مراکز صحت کو فراہم ہونی ادویات ہر ماہ کے پہلے ہفتہ میں ختم ہوجاتی ہیں اس کے بعد سٹاف ہاتھوں پہ ہاتھ رکھے مریضوں کو ادویات کی بازار سے خرید نے کا مشور ہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ایک طرف سٹاف اور مریضوں کے مابین تکرار آئے روز کا معمول بنتا جارہا ہے اور دوسری جانب مریضوں کا سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی پر اعتماد بھی اٹھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے سٹاف تو ہر ماہ لاکھوں روپے تنخواہ تو وصول کرلیتا ہے لیکن مریضوں کا کوئی پرسان حل نہیں ہے۔حکومت کو چاہئے کہ پنجاب کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں کم از کم ادویات تو فراہم کی جائیں ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں