101

حقیقت محبت/صاحبزادہ قاضی محمد عمران

روئے ارضی کے خدوخال اور محیر العقول اندازے سے مقرر کردہ نظام ہائے کائنات انسانی عقل کو دعوت تدبر دیتے ہیں۔ جس سمت چشم انسانی عکسِ کائنات کی تصویر کشی کرے قلب و باطن کوجلا بخشنے والے جلوے نظر آتے ہیں۔ مگر انسانی تخریب کاریوں نے دنیا کی خوبصورتی میں بگاڑ ڈالنے کی جسارت کی اور کر تا چلا جا رہا ہے۔مگر یہ دنیا پھر قدرت کے حسین جلووں کی آماجگا ہ ہے۔ حسن کو دیکھ کر جو قلبی فرحت انگڑائی لیتی ہے وہ فطرتِ انسانی کا خاصا ہے۔ یہی محرکات جب تواتر اختیار کرلیں تو محبت جنم لیتی ہے۔محبت انسان اور اس کی حیات سے وابسطہ ایسی حقیقت ہے جسے ہر ایک نے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر مختلف و متفرق انداز میں بیا ن کیا۔ محبت جب شدت اختیار کرنے لگے اور عقل کے منافی اقدامات سرانجام دے تو اسے عشق کا نام دیا جاتا ہے۔ہماری روز مرہ زندگی میں عشق کی دو اصناف، عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی ہمیشہ زیرِ بحث رہے ہیں۔اگر کہا جائے کہ کائنات کو وجود بھی محبت کا ثمر ہے تو غلط نہ ہوگا۔ رب کائنات نے اپنے محبوب کی تخلیق کے بعد اپنی معرفت کو عام کرنے کا ارادہ کیا اور محبوب کی خاطر کائنات تخلیق کی ۔دنیا میں محبت کرنے والوں نے جو داستانیں رقم کیں وہ تاریخ کے اوراق پر محفوظ ہوتی چلی گئیں۔محبت کی خاطر کہیں جنگ و جدل اور قتل و خوں ریزی کے بازار گرم ہوئے، کہیں محبت کی خاطر محبت بانٹی گئی اور یادگاریں تعمیر ہوئیں۔لیلا مجنوں، ہیر رانجھا ، سسی پنوں جیسی داستانیں ہر ثقافت اور تہذیب کی پہچان بنیں۔محبت کے رنگ اور روپ ہر مقام پر مختلف ہیں۔ صرف جنس مخالف کو ٹوٹ کر چاہنا ہی محبت نہیں ، ہرگز نہیں بلکہ محبت ایسی عالمگیر حقیقت ہے کہ مخلوقات خداوندی میں کسی کو کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ محبت کا سب سے اعلیٰ معیار خالق اور مخلوق کا ہے۔ مخلوق میں پھر سب سے زیادہ خداسے محبت کی متحمل حضرتِ انسان کی ذات ہے۔ صرف انسان ہی نہیں بلکہ نورانی مخلوقات، ملائکہ ، جنات اور چرند پرند بھی خدا سے محبت رکھتے ہیں۔انسان کی انسان سے محبت بھی فطری عمل اور حیاتِ انسانی کا حسن ہے۔والدین اور اولاد کے مابین ، بہن بھائیوں کے مابین، اعزا و اقربا اور دوستوں سے محبت ،اساتذہ اور تلامذہ کی محبت بھی محبت ہی کے مختلف زاویے ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کو محبت کا جو رخ دکھایا جا رہا ہے وہ اس کے وسیع تر مفہوم کے منافی ہے۔اسلام دشمن قوتیں ہماری نوجوان نسل کو محبت کے نام گمراہ کرنے کی تما م استعداد کا ر بروئے کار لانے میں مصروف ہیں۔ یقیناًمحبت ایک عظیم جذبہ، ایک عظیم حقیقت اور ایک عظیم خلق حسنہ ہے مگر جس رخ سے اسے الیکٹرانک میڈیا کی رنگینوں میں نمایاں کیا جا رہا ہے وہ محبت نہیں بلکہ حوس اور بے راہ روی ہے۔محبت کی حقیقت یہ ہے کہ جس سے کی جائے اس سے محبت کرنیوالے سے بھی محبت ہوتی ہے۔ جبکہ حوس میں اپنے محبوب سے کسی اور کی محبت رقابت کہلاتی ہے، اور نفرت کو جنم دیتی ہے۔اگر بندے اور خدا کی محبت کے فطری ، حقیقی اور ازلی تصور پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے جس سے خدا محبت کرے اس سے بھی محبت ہوتی ہے،کیوں ہم خدا سے محبت کرتے ہیں یہاں رقابت یا نفرت کی گنجائش نہیں۔یہی وجہ ہے کہ معرفت الٰہیہ کی دولت سے سرفراز ہونے والوں کے ہاں دستور قائم ہے کہ اولیا اللہ خدا کے محبوب ٹھہرے اور اولیا سے محبت کرنیوالے بھی خدا کے پسندیدہ لوگ۔ جنہوں نے محبوب مکرمﷺ کی محبت کو پا لیا ان سے خدا نے صرف محبت کی ہی نہی بلکہ اپنی لاریب کتاب میں اس قانون کا ذکر بھی بار بار کیا۔ہندوستان کی سر زمین میں محبت کی بڑی بڑی داستانیں اپنی یادگاروں کے ساتھ زندہ ہیں،گو یا محبت کرنیوالوں نے اپنی محبت کو زندہ رکھنے کے لیے یادگاریں بنوائیں، جس کی سب سے بڑی مثال تاج محل ہے۔ مگر تاج محل سے بڑی محبت کی علامت بھی اسی دنیا میں موجود ہے۔مسلم خلافت کا آخر ی دور، اس اعتبار سے بھی سنہری دور ہے کہ رسول معظم ﷺ کی ہر یادگارکو محفوظ بنانے کے لیے ترک حکومت نے اپنی تمام کاوشیں صرف کیں۔عثمانی دور میں مسجد نبوی کی تعمیر ، تعمیرات کی دنیا میں محبت اور عقیدت کی معراج ہے۔ترکوں نے جب مسجد نبوی کی تعمیر کا ارادہ کیا تو انہوں نے اپنی وسیع و عریض سلطنت میں اعلان کیا کہ انہیں عمارت سازی سے متعلق فنون کے ماہر درکار ہیں،بس اعلان ہونا ہی تھا کہ فن تعمیرات کے ہر شعبے سے ماہرین نے اپنی خدمات پیش کر دیں۔سلطان کے حکم سے استنبول سے باہر ایک الگ شہر آباد کیا گیا جس میں دنیا بھر سے آنیوالے ماہرین کو الگ الگ محلات میں ٹھہرایا گیا۔یوں عقیدت اور حیرت کے ایسے سفر کا آغاز ہوا جس کی نظیر تاریخ عالم میں تلاش کرنا ممکن نہیں۔خلیفہ وقت نے وقتاً فوقتاً اس شہر کا دورہ کیا اور ماہرین کو تاکید کی کہ وہ اپنے بچوں کی انہی فنون میں ایسے تربیت کریں کہ بچے نابغہ روزگار ہو جائیں۔چنانچہ بچوں کی تربیت ان فنون کے ساتھ ساتھ ترک حکومت نے انہیں حافظِ قرآن اور شہسوار بنایا۔دنیا کی تاریخ کا یہ انوکھا منصوبہ کئی برس تک جاری رہا۔پچیس سال بعد نوجوانوں کی ایسی جماعت تیار ہوئی جو نہ صرف اپنے فن میں مہارت رکھتے تھے بلکہ وہ حافظ قرآن اور باعمل مسلمان بھی تھے، یوں لگ بھگ پانچ سو کے قریب افراد تیار ہوئے۔ اسی دوران ترک حکومت نے پتھروں کی کانیں دریافت کیں،جنگلوں سے لکڑیاں کٹوائیں تختے حاصل کیے اور شیشے کا سامان جمع کیا۔جب یہ تمام سامان مدینۃ الرسول ﷺ میں پہنچایا گیا تو ادب کا یہ عالم کے اس سامان کو مسجد نبوی سے دور ایک بستی میں رکھا گیا تاکہ حرمِ نبوی کے ادب میں دورانِ تعمیرات فرق نہ آنے پائے۔حفاظِ کرام کی جماعت جسے اس عظیم الشان تعمیری منصوبے کے لیے تیار کیا گیا تھا، دورانِ تعمیر ہر وقت تلاوتِ قرآن میں مشغول رہتی۔مزدور اور ہنر مند درود و سلام سے اپنی زبانیں تر رکھتے۔ یہ سلسلہ پندرہ برس تک چلتا رہااور بالآخر روئے زمین کے تمام مسلمانوں کے ایمان اور عشق کا مرکز ،مسجد نبوی جدید تعمیری منصوبے میں مکمل ہوئی۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں