اِسلام دین فطرت ہے۔ جس میں زندگی کے ہر طبقے بالخصوص حقوقِ نسواں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ جو اُسے آفتابِ اسلام ظہور پذیر ہونے سے بیشتر حاصل نہ تھے۔ اِسلام میں عورت کے مردوں پر کچھ حقوق کا تعین کیا گیا ہے۔ جس میں نان و نفقہ کی فراہمی، حُسن سلوک سےپیش آنا شامل ہیں۔ اِس کی عمدہ مثال حضور پاکؐ کی حیاتِ مقدسہ ہے۔ جس میں اپنی 11 ازواجِ مطہرات میں سے کسی ایک پر ہاتھ اُٹھانا تو درکنار کبھی جھڑکنے کی بھی نوبت نہ آئی۔ اِس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ بیوی یا عورت سے حُسن سلوک بھی سنتِ نبوی ہے۔ جس پر عمل کرنا باعث اجر و ثواب ہے۔ عورت ماں کے رُوپ میں دنیا کی عظیم ہستی، بیوی کے روپ میں گھر کی خوش بختی کی ضامن اور بہن اور بیٹی اور دوسرے رشتوں میں ایک اعلےٰ مقام رکھتی ہے۔ ایک صحابی نے حضورؐ سے سوال کیا کہ بیوی کا اِس کے شوہر پر کیا حق ہے تو آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’کہ جب تُو کھانا کھائے تو اُسے کھلائے۔ جب تُو پہنے تو اُسے پہنائے اور اس کے چہرہ پر نہ مارے اور اگر اُس سے ترکِ تعلق کرے تو گھر میں کرے‘‘۔ اِس حدیثِ مبارکہ سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ عورت کے مرد پر کتنے حقوق ہیں۔ حقوقِ نسواں سے متعلق قرآن و سنت میں واضح احکامات کے ہوتے ہوئے حکوت پنجاب کو آخر کیا سُوجھی کہ ایک ایسا قانون لے آئی جو ہماری معاشرتی اور اِسلامی اقدار کے منافی اور متصادم ہے۔ اور مغربی اقدار کا زیادہ عکاس ہے۔ ایسا قانون متعارف کروانے کے پس پردہ کیا عوامل کار فرما ہیں یہ تو متعلقہ حکومت ہی بتا سکتی ہے۔ قرآنِ پاک میں بیوی۔ خاوند کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کو ہر دو فریقین کی جانب سے ایک ایک ثالث کے ذریعے سُلجھانے کے احکامات ہیں۔ جب کہ یہ قانون ایسی صورت حال میں خاوند کو سزا دے کر مسئلے کا حل تلاش کرتا ہے۔ جس شوہر کو بیوی دو دن کے لئے گھر سے باہر نکالے گی تو کیا ایسا عمل شوہر کو اُس کا تابع فرمان کردے گا۔ بلکہ اِس سے شوہر کے دِل میں اشتعال اور کنفرنٹیشن(Confrontation) کے جذبات پیدا ہوں گے اور وہ یعنی شوہر صرف تین الفاظ کی ادائیگی سے بیوی کو ہمیشہ کے لئے گھر سے نکال سکتا ہے۔ تو اِس طرح سے فریقین میں کشیدگی میں کمی ہوگی یا اضافہ؟ اگر بیوی، بیٹی یا بہن میں سے کوئی بے راہ روی کے راستے پر چل پڑتی ہے۔ تو اُس کے شوہر، بھائی یا باپ کو اُسے راہِ راست پر لانے کا کوئی حق یا اختیار نہیں ۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا مذہب ہم پر کچھ ذمہ داریاں عائد کرتا ہے جن کی بجا آوری میں روشن خیالی کی کوئی اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ اہلِ مغرب نے عورت کو کسی کے آگے جواب دہ ہونے سے آزاد کیا اور اُن کے تحفظ کے لئے مختلف قوانین رائج کئے مگر یہ اُن کے لئے نجات دہندہ ثابت نہ ہوئے۔ آج وہاں طلاق اور ریپ کا تناسب یہاں سے کہیں زیادہ ہے۔ اِس قانون کے نفاذ سے مربوط گھریلو ماحول کو بکھیر دیا گیا ہے۔ اور اِس میں موجود نقائص کی بنا پر اسلام نظریاتی کونسل جو ایک آئینی ادارہ ہے نے بھی اِسے اسلامی اقدار سے متصادم قرار دیا ہے۔ اِس قانون کے پس پردہ خواتین کی خیر خواہی ہی سہی مگر اِس میں کوئی حرج نہیں کہ اِس پر دینی حلقوں کے تحفظات کو دُور کردیا جائے۔ اور اِسے اسلام اقدار کے تابع لایا جائے۔ ہماری اپنی اخلاقی ، معاشرتی اور اِسلامی اقدار ہیں ان سے لاتعلق ہوکر کوئی مثبت نتیجہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ بُرائی سے دُنیا کا کوئی معاشرہ پاک نہیں مگر اہلِ مغرب کو ہماری بُرائی کو دُنیا کے سامنے اُچھالنے میں بُہت مزہ آتا ہے۔ اور ہم ہی میں سے بُرائی کو اُجاگر کرنے والا تو انہیں بہت اچھا لگتا ہے۔ محترمہ شرمین عبید چنائے نے ہماری معاشرتی برائیوں کو اپنی دستاویزی فلمز کے ذریعے اُجاگر کیا ۔ جسے مغرب میں بُہت پذیرائی ملی اور انہیں دو مرتبہ آسکر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اِس دھرتی کی بیٹیوں پر اس سے بڑھ کر مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ جن میں سے ایک ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی ہیں۔ اگر وہ اُن پر ایک دستاویزی فلم بنادیتیں تو یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہوتی۔ مگر اِس طرح سے انہیں ایوارڈ ملنے کی کوئی توقع نہیں تھی کیونکہ یہ مظالم پاکستان نہیں کوئی اور ڈھارہا ہے۔ درحقیقت ان برائیوں سے چھٹکارا اغیار کے سامنے تشہیر سے ممکن نہیں۔ یہ ہماری معاشرتی برائیاں ہیں لہذا ان کی اصلاح بھی ہم ہی نے کرنی ہے۔ اور یہ اُس وقت تک ختم نہیں ہوں گی جب تک ان کے محرکات اور اسباب کی بیخ کنی کرکے ہماری سوچ میں تبدیلی نہیں آجاتی اور یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے کہ اس ملک میں اسلامی اقدار اور قرآن و حدیث کی روشنی میں قانون سازی کرکے اِس پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنایا جائے۔ لبرل، سیکولر اور روشن خیالی پر مبنی قانون سازی کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے ورنہ ہم اِدھر کے رہیں گے نہ اُدھر کے۔{jcomments on}