89

جنگ کے منڈلاتے سائے اور سیاست دان/مشتاق علی

مُلکی سلامتی اور دفاع کے لئے مسلح افواج کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ چنانچہ اِس مقدس فریضے کی بجا آوری کے لئے ہمارا ہر جوان ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ دفاعِ وطن کے لئے اب تک جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی قربانیوں سے ہماری عسکری تاریخَ بھری پڑی ہے۔ 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگوں میں ہماری بہادر افواج نے اپنے سے 5 گنا بڑی فوج کا جس بہادری اور دلیری سے مقابلہ کیا اُس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی اور یہ سب کچھ جذبہء ایمانی اور عوام کی مکمل اور بھرپور حمایت و پشت پناہی کی بدولت ممکن ہوا۔ ان دونوں جنگوں میں پاکستانی عوام کا جوش و جذبہ اور مسلح افواج سے یک جہتی کا اظہار قابل دید و تحسین تھا۔ GT روڈ پر رواں دواں ملٹری Convoys کو جس عزت، جوش اور خلوص سے الوداع کیا جاتا وہ اب تک ذہن میں نقش ہیں۔ جس کی ضرورت موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں پھر سے شدت سے محسوس ہورہی ہے۔ فوج عوامی حمایت کے بغیر مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کرسکتی۔ یہ ایسا عنصر ہے جس سے فوج کی حوصلہ افزاءئ ہوتی ہے اور اُس کی جنگی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اِس کی مثال 1971 میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں لڑی گئی جنگ ہے۔ اِس جنگ میں ہماری ناکامی کا واحد سبب یہ تھا کہ ہماری افواج کو وہاں کی عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ دفاعِ وطن مسلح افواج کے علاوہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ہر فرد اور شہری کا فرضِ عین ہے۔ اس کا دفاع دراصل اپنی ذات اور شخصیت کا دفاع ہے چوں کہ ہمارا وجود اور پہچان اِس کی سلامتی سے منسلک ہے۔ اِس ضمن میں سیاست دانوں پر کچھ زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یہی وہ شعبہ ہے جسے عوام بذریعہ ووٹ منتخب کرکے امورِ ریاست چلانے کی ذمہ داری سونپتی ہے۔ بھارت ہمارا ازلی دُشمن ہے جس نے آج تک اِس ملک کو صدقِ دِل سے تسلیم نہیں کیا۔ وہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر جب موقع ملتا ہے اُ س سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ 1971 میں غدارِ وطن شیخ مجیب الرحمن (موجودہ بنگلہ دیشی وزیرِاعظم کا باپ) سے مل کر سازش کے نتیجے میں ہمیں دو لخت کرکے ایک ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ اور اب CPEC منصوبے نے امریکہ اور انڈیا دونوں کی نیند حرام کردی ہے۔ چنانچہ انڈیا، امریکہ کی پشت پناہی سے اِس منصوبے کو سبوتاز کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ کبھی کراچی اور بلوچستان میں بدامنی پھیلا کر اور کبھی افغانستان کی معاونت سے ملک کے دوسرے حصوں میں دہشت گردی کروا کے ہمیں اِس منصوبے سے کنارہ کشی پر مجبور کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ مگر جب ہماری افواج کی موثر حکمت عملی سے اُسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو اُس نے اُڑی حملے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام لگا کر پورے بارڈرپر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ شروع کردیا۔ افغانستان، بھوٹان اور بنگلہ دیش کو ہمنوا بنا کر سارک سربراہ کانفرنس جو نومبر میں اسلام آباد میں منعقد ہونا تھی اُسے ملتوی کرادیا۔ اور اب فضائی حدود کی پابندی اور ہماراپانی بند کرنے کی دھمکیوں پر اُتر آیا ہے۔ تو ایسے حالات کے تناظر میں یہ مُلک ہم سے کس بات کا تقاضا کرتا ہے۔ قومی یک جہتی، اتفاق اور اتحاد یا نفاق اور انتہا پسندی ہمارے چند سیاست دان مسئلے کی نزاکت سے چشم پوشی کررہے ہیں اور وہ بالواسطہ دُشمن کے لئے آسانی پیدا کررہے ہیں۔ متحدہ کا بانی الطاف حسین لندن میں بیٹھا کیسی کیسی سازشیں کررہا ہے۔ ’’را‘‘ سے فنڈنگ لینے والا کیسے پاکستان کا ہمدرد ہونے کا دعوہ کرسکتا ہے۔ قادری صاحب سال بعد کینیڈا سے پاکستانی عوام کا درد لئے یہاں تشریف لاتے ہیں۔ چند ایک مقامات پر ہلہ گلہ کرکے واپس روانہ ہوجاتے ہیں۔ اگر واقعی آپ دونوں حضرات کے دِلوں میں عوامی حقوق کا درد ہے تو پھر دیارِ غیر میں سکونت اختیار کرنا چہ معنی دارد۔ براہمداغ بگتی اور چند دیگر خود ساختہ بلوچ لیڈر بیرونِ ملک بیٹھ کر انڈیا کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر کیا کچھ نہیں کررہے۔ کپتان صاحب آئے دن نت نیا ایشو اُٹھا کر کبھی کنٹینر پر دھرنا دینے کا عالمی ریکارڈ بناتے ہیں اور قوم کا اربوں کا نقصان کردیتے ہیں اور ان دنوں موضوعِ احتجاج ’’پانامہ لیکس‘‘ ہے جس کے لئے وہ بہت سے مارچ کرچکے ہیں۔ یہ کام آئینِ پاکستان کے مطابق عدالت عظمیٰ کا ہے۔ اور اُسے یہ کام کرنے دیجیئے۔ اِس ملک کو دیگر کئی طریقوں سے بھی لوٹا گیا۔ کسی نے سیاسی اثر و رسوخ کے سہارے قرض معاف کروایا۔ کسی نے ماتحت وزراء کی معرفت اربوں کی کرپشن کی اور بیرونِ ملک اثاثے بنائے۔ کسی نے بینکوں میں گھپلے کئے اور بعض نے محکمانہ فنڈز مین خرد برد کی۔ کیا یہ سب کچھ کرپشن کے زمرے میں نہیں آتا۔ آپ ایسے تمام افراد کو قانون کے کٹہرے میں نہ لانے پر کیوں خاموش ہیں پانامہ لیکس کا معاملہ اب عدالت عظمیٰ نے سماعت کیلئے منظور کرلیا ہے۔ اور اسے open رکھنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ آپ از خود منصف بننے کی بجائے تمام تر ثبوتوں کے ہمراہ عدالت ہذا کی معاونت کریں تاکہ مجرموں کو قرار واقعی سزا مل سکے اور ساتھ ہی ساتھ دیگر کرپشن کیسز کی بھی مدعیت کا فریضہ انجام دیں۔ حقیقت میں یہ آپ کا اِس ملک اور قوم پر احسانِ عظیم ہوگا۔ فی الوقت ملک میں امن اور سکون کے قیام میں معاونت کریں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے۔ عوام انتشار پسندی اور پر تشدد سیاست سے مایوس نظر آتی ہے۔ اِسکا حالیہ ثبوت بلدیاتی اور ضمنی انتخابات میں PTI کی ناکامی ہے دُشمن ہمیں ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے لہذا ملک میں یک جہتی، اتحاد اور ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے۔ آپ بھی اپنی ذمہ داری نبھائیں اور سب مل کر حکومت اور مسلح افواج کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ وہ مکار اور عیار دشمن کے اوچھے ہتھکنڈوں سے یک سوئی اور دلجمعی سے نبٹ سکیں۔ یہ ہمارا قومی فریضہ بھی ہے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں