85

جب وقتِ نزاع آئے۔۔۔۔فائزہ عابد جعفری

میں قبر اندھیری میں گھبراؤں گا جب تنہا امداد میری کرنے آ جانا رسول اللہ
روشن میری تربت کو للہ ذرا کرنا جب وقت نزاع آئے دیدار عطا کرنا
22 جون ، 16رمضان المبارک کی سحر جب یہ نعتیہ اور دعائیہ کلمات ایک نجی ٹی وی چینل پر براہ راست نشر ہو رہے تھے تب مجھ سمیت کسی بھی ناظر کے دل میں یہ شاءئبہ تک نہیں گزرا ہو گا کہ یہ دعا اس ثناء خواں کی ٓ ٓآخری دعا ہو گی۔ پھر ہو ایوں کہ 23 جون کی دوپہر کو ہزاروں لوگوں نے اس شہید ثناء خواں ، عاشق رسول کو لحد میں اتارتے ہوئے کئی دفعہ اشکبار آنکھوں اور امغموم دلوں کے ساتھ یہی دعا دہرائی۔کیا شان تھی اس عاشق محمدؐ و اٰل محمد ؐکے جنازے کی جس کی وجہ سے دنیا بھر کے کئی غیر مسلموں کو موت سے قبل قبول اسلام اور توبہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ بھر دو جھو لی میر ی یا محمد لوٹ کر میں نہ جاوں گا خالی،تاجدار حرم ہو نگاہ کرم، میں ہو ں خواجہ کی دیوانی ، جیسے سینکڑوں کلام ہیں جو شہید امجد فرید صابری کی سحر انگیز اور پر اثر آواز میں مردہ دلوں کا یمان تازہ کرتے رہے۔ اور یقیناًیہ اثر تب تک رہے گا جب تک یہ آواز گونجے گی۔ یہ شہید اللہ اور اسکے رسول اور اٰل رسول کا مداح اور ذاکر تھا اور اللہ کا اپنے ذاکروں کے ساتھ فاذ کرونی اذ کر کم (یعنی تم میر ا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا) کا وعدہ ہے۔ اس نے اپنے محبوب کی مداح سرائی کرنے والے کا ذکر بھی ورفعنا لک ذکرک کے صدقے بلند فرمایا۔مشہور قوال و نعت خواں امجد فرید صابری نہ صرف اپنے فن کے اعتبار سے بے مثال تھے بلکہ بحیثیت انسان بھی بہت اچھے ، نیک سیرت ، خوش مزاج ، امن پسند، درویش صفت اور ہر دل عزیز واقع ہوئے تھے۔40 سال کی قلیل عمر میں انکا اس دنیا سے عالم حقیقی میں منتقل ہو جانا ان کے اپنے حق میں تو یقیناًاچھا ہے مگر سوگواران کے لئے بڑا صدمہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے ۔ حق ہے کہ انکی زندگی اتنی ہی لکھی گئی تھی اور انھوں نے ایسے ہی جانا تھا، مگر کیا یہ بھی حق ہے کہ عشقِ محمدؐ و اٰل محمد ؐکے پر چار کا صلہ انھین اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شاہراہ پر دن دہاڑے سر میں گولیاں کھا کر ملنا تھا؟ خالق سے یقیناًکوئی شکوہ نہں نہ ہی جائز ہے مگر اسکی مخلوق سے جواب طلبی ضرور ہوگی۔ ایک ایسا انسان جس نے میڈیا پر کبھی اپنا مسلک تک ظاہر نہیں ہونے دیا ، جو اتحاد بین المسلمین اور امن کا داعی تھا اسے مسلکی فسا د کی بھینٹ چڑھانے کے پیچھے کیا منصوبہ بندی تھی، ، یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے اگر اس قتل کی کڑی مشہور نوحہ و منقبت خواں فرحان علی وارث پر کئے جانے والے قاتلانہ حملے کے ساتھ ملائی جائے۔ فرحان علی وارث اور امجد صابری کی جوڑی ماہ رمضان کی نشریات میں ٹی وی چینلوں پر خاصی مشہور تھی ۔ ایک ہی تاریخ میں دن کے وقت امجد صابری اور رات کو فرحان علی وارث کی گاڑی پر ٹارگٹ کر کے گولیاں برسانا ایک اہی بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ منصوبہ ساز ان دونو ں ہائی پرفائل اشخاص کہ جن کے ساتھ ایک مخصوص مسلک کے لوگوں کی گہری جذباتی وابستگی تھی، کو نشانہ بنا کر ملک میں ایک بہت بڑے فساد کو ہوا دینا چاہتا تھا ۔ جو کام ہزارہ برادری کے80 جنازے نہیں کر سکے تھے وہ کام ان دو اشخاص کے جنازے بہت آسانی سے کر سکتے تھے۔ صد شکر کے دشمن اپنے عزائم میں اس حد تک کامیاب نہ ہو سکا جتنا غالبا اسکا اندازہ تھا۔ کیونکہ نوحہ خواں فرحان علی وارث اس وقت اپنی گاڑی میں موجود ہی نہیں تھے۔اسکے باوجود سوشل میڈہا پر بہت سے لوگ اس فساد کو اجاگر کرنے کی کوشش میں دانستہ و غیر دانستہ طور پر مصروف ہیں۔ جس سے ایک عجیب سی بحث جنم لے رہی ہے جسکا تیجہ ہ نفرت اور تعصب کے سوا کچھ نہٰں۔ امجد صابری ایک درویش صفت انسا ن تھے اور درویش کا کوئی مسلک نہیں ہوتا سوائے امن اور اسلام کے ۔ یہی وجہ ہے کہ امجد صابری نے کبھی اپنا عقیدہ یا مسلک میڈیا پر ظاہر نہں ہونے دیا۔ یہ تو ہم کج فہم اور تنگ نظر لوگ ہیں جو ایسے مباحثوں میں پڑ کر اچھے بھلے نیک انسان کی زندگی ، موت او ر اپنی دانست میں اسکی آخرت کو بھی متنازعہ بنا دیتے ہیں اور شر پسندوں کے عزائم کو کامیاب کرنے میں انکی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ اگر ہم جنتی اور دوزخی ، کافر اور مسلم کا لیبل لگانے کا فیصلہ اپنے ہاتھوں میں نہ لیں اور ایک مسلمان بلکہ انسان کی قیمتی جان کی قدر ایک انسان کے طور پر کریں ،مسلکی کھینچا تانی اور وہ تیرا یہ میرا کی بحث سے نکل آئیں، تو شائدیہ بڑے بڑے فسادات اور حادثات رونما نہ ہوں۔ یا کم از کم اتنا تو ممکن ہے ہی کہ ہمارے گلی محلوں اور حلقہ احباب میں مسلکی منافرت اور تعصب کم ہو جائے، ہم اور ہماری حکومت قیام امن کی ہر کوشش میں ناکام سہی، مگر اپنے اپنے حلقے اپنے اردگرد توتو کسی حد تک نفرتیں مٹا ہی سکتے ہیں۔۔ اور یہ ہمارا بھی فریضہ ہے، بحیثیت پاکستانی اور بحیثیت مسلم۔۔( التماسِ دعا برائے شہید امجد فرید صابری){jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں