اعظم احساس
سال تو مجھے اچھی طرح یاد نہیں البتہ 1960کے عشرہ کی بات ہے میں ابو کے ساتھ جوتے خریدنے بازار کی طرف جارہا تھا۔ مین بازارہمارے گھر سے کچھ زیادہ دور نہیں تھا لہذا ہم پیدل ہولئے دوپہر کا وقت تھاراستے میں میں نے دیکھا کہ ایک روڑی کوٹنے والا مزدور سٹرک کے کنارے ایک درخت کے سائے تلے بیٹھا روٹی کھا رہا ہے اس کے ایک ہاتھ میں پراٹھا اور دوسرے ہاتھ میں چھلا ہوا پیاز تھا ۔ وہ ایک نوالہ پراٹھے کا منہ میں ڈالتا اور دوسرے ہاتھ سے پیاز کو دانتوں سے کاٹتا اور مزے لے لے کر روٹی کھاتا۔ ابو آگے آگے چل رہے تھے ۔ میں کھڑا ہو کر غور سے اس شخص کو دیکھنے لگا۔ میری عمر اس وقت وہ عمرتھی جب گڑ کے ساتھ پراٹھا مجھے اچھا لگتا تھا مگر پیاز کے ساتھ روٹی کھانا میں تصور بھی نہیں کر سکتاتھا۔ میرے والد مرحوم نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور میں دوبارہ ان سے جا ملا مگر انہیں اس آدمی کی طرف اشارہ کر کے کہا ابو یہ آدمی پیاز سے کیسے روٹی کھا رہا ہے میرے ابو مرحوم نے ایک سروآہ بھری اور بولے۔ بیٹا بھوک انسان کو گھاس بھی کھانے پر مجبور کردیتی ہے یہ بے چارہ تو پھر پیازسے روٹی کھا رہا ہے تم لوگ خدا کا شکربجا لا یا کرو کہ اللہ رب العزت نے تم لوگوں کو بہت سی نعمتوں سے نوازہ ہے ۔ ہم لوگ بازار چلے گئے جوتے خریدے مگر اس آدمی کا یوں پیاز سے روٹی کھانے والا منظر میرے ذہن میں ایسا نقش ہوا کہ آج بھی یہ کل کی بات لگتی ہے۔ عید الاضحی آئی اور اپنے ساتھ قربانی کا گوشت لائی۔ ہم نے عید کیلئے ضرورت کی تما م اشیاء سے فریج والا حصہ بھر دیا اور Freezerوالا حصہ قربانی کے گوشت کیلئے رکھ چھوڑا۔ پیاز کوئی نصف دھڑی کے قریب موجود تھا لہذا عید کا دن تو جیسے تیسے گذر گیا مگر عید کے دوسرے دن پیاز کی قلت کا سامنا تھا لہذا شاہ باغ اور ساگری کا رخ کیا مگر ناکامی ہوئی ۔ تاہم گاؤں کی ایک دوکان سے ایک کلو کے قریب پیاز مل گیا۔ عید کی چھٹیاں اور ہلہ گلہ ختم ہو ا تو بیگم بضد تھی کہ روات جائیں پیاز لائیں کہ گوشت فرج میں خاصا بچا پڑا ہے یاد رہے کہ اس سال میں قربانی نہ دے سکا تاہم عزیزوں رشتے داروں نے خاصی مقدار میں گوشت بھجوا دیاتھا۔ جسکے مصرف کا مرحلہ ابھی باقی تھا اور ویسے بھی پیاز تو روز مرہ کی ضرورت ہے لہذا دوبارہ مارکیٹ کا رخ کیا کہ شائد شاہ باغ یا ساگری سے پیاز مل جائے مگر یہاں بازارچھان مارا اچھی قسم کا پیاز نہ ملا ۔ جس دکاندار سے پوچھتا دکاندار کہتا صاحب پیاز منڈی میں ہی شارٹ ہے اور منڈی میں 400روپے دھڑی لا کر بیچیں کیا اور کمائیں کیا۔ تاہم میں روات نکل گیا کہ میں نے ایک چھوٹا سے مرغا بھی خریدنا تھا۔ مرغا خریدا ایک ریڑھی پر نظر پڑی وہاں پیاز نظر آیا۔ بھاگم بھاگ ریڑھی والے کے پاس پہنچا ۔بھاؤ پوچھا۔ ریڑھی والا کہنے لگا بھائی ایک سو تیس روپے کلو ہے اور 550روپے دھڑی ریڑھی والے نے میری شخصیت سے اندازہ لگایا کہ شائد میں پیاز خرید لوں گا جبکہ ریٹ سن کر مجھے اپنی جیب ہلکی محسوس ہوئی۔ تاہم میں نے اس سے کہا کہ آدھا دھڑی ڈال دو۔ اور مرغا اس کی ریڑھی پر رکھ کر خو د پیاز ڈالنا شروع کر دیا کہ میرے جیسے ضرورت کے مارے وہاں اور اچھی خاصی تعداد میں اسکی ریڑھی کے گر آکٹھے ہوگئے تھے۔ الغرض پیاز ملنے کی خوشی میں جلد جلد اسکے پیسے ادا کئے اورمرغا وہیں ریڑھی پر بھول کر گھر کو چل دیا۔ میری عمر کے لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ آج سے کوئی پچیس تیس سال پہلے سبزی فروش آپکو سبزی کے ساتھ تازہ پیاز ‘سبز دھنیا اور ھری مرچ بھی مفت ڈال دیتے تھے تاکہ آپکی ہانڈی آرام سے تیار ہوجائے اب اس بارے سوچتا ہوں تو سمجھ میں کچھ نہیں آتا ۔ ہماری زراعت کی پیداوار یوریا کے استعمال سے اچھی خاصی ہے منڈیاں آلو پیاز سے بھری رہتی ہیں مانا کہ پیاز کی نئی فصل ابھی منڈی نہیں پہنچی تاہم نئی فصل آنے پر خاصی مقدا ر میں آلو پیاز وغیرہ ذخیرہ بھی کر لیتے ہیں جسکی وجہ سے مصنوعی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ن لیگ کی حکومت سیاسی زلزلوں کا سامنا اور آفٹر شاکس میں الجھی ہوئی ہے جبکہ گلہ منڈی حضرات من مانیاں کر رہے ہیں اور عوام بے چاری مہنگائی کے بوجھ تلے پیستی جار ہی ہے ۔ سوچتا ہوں کہ جب میں نے عمر عزیز میں اتنے نشیب و فراز دیکھے ہیں تو میری اولاد جب میری عمر کو پہنچے گی تو ان کا کیا حال ہوگا۔ شائد اس وقت لوگ جب کسی کی دعوت کریں گے تو پہلے آلو پیاز کو سوچیں گے۔ شائد لوگ جب آفس سے لوٹیں گے تو انکی پتلوں کی ایک جیب سے آلو اور دوسرے سے پیاز کی ایک پھیلی نکلا کرے گی اور بیگمات یہ دیکھ کر ان پر واری واری جایا کریں گی اور جو اس سوغا ت سے محروم ہوں گے وہ غالب کا یہ شعر گنگنا تے داخل ہونگے
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب۔ دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
136