دین اسلام میں تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ خالق کائینات کے اس ارشاد سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ،،علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے،، علم مسلمانوں کے نذدیک ایک میراث کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ ذمہ داری اسلا می ر یاست پر ڈالی گئی ہے کہ وہ اس اسلامی ریاست میں بسنے والے شہریوں کی تعلیم کا بیڑا اٹھائے لیکن کتنی بدنصیبی کی بات ہے کہ ھم اور ہماری ریاست اپنے اسی سرمائے کی حفاظت میں نہ صرف کوتاہی کر رہے ہیں بلکہ انتہائی غفلت کا شکار ہو رہے ہیں ملک کے چند سرمایا داروں نے پہلے ہی تعلیم کو تجارت بنا رکھا تھا اب حکومت نے بھی اس بہتی گنگا میں میں ہاتھ دہونے کا مسسم ارادہ کر لیا ہے ا ور ملک کے سرکاری تعلیمی اداروں کو کو مختلف این جی اوز جن میں پیف(پاکستان ایجوکیشن فونڈیشن) اور پاکستان سپورٹس فونڈیشن سر فہرست ہیں ا ن کے حوالے کر رہی ہے ضلع راولپنڈی کے262سکول اس سسٹم کے تحت کیے جا رہے ہیں تحصیل کلرسیداں کے14بوائز اور15گرلز سکول شامل ہیں یہ دراصل پرئیویٹائذیشن کی طرف ایک قدم ہے اس سے پہلے پی آئی اے،پی ٹی سی ایل اور ریلوے پر یہ تجربات ہو چکے ہیں جس کا نتیجہ منفی زیرو کی طرف گیا ہے اور یارلوگوں سے سنا ہے کہ ریلوے کی پٹڑی75پیسے فی من کے حساب سے فروخت کر کے پتہ نہیں کس بیچارے غریب سرمایہ دار کی امداد کی گئی اور اب نظر ملک میں موجود سرکاری تعلیمی اداروں کی اس کروڑوں کی جاییداد پر ہے جو اچھے وقتوں میں اس ملک سے بے لوث محبت رکھنے والے لوگوں نے بے لوث طور پر حکومت پنجاب کے نام کروائی تھی اب تو پچیس تیس سالوں سے کوئی نیا سکول بنا ہی نہیں کیونکہ اب بے لوث زمینیں دینے والے اول تو رہے ہی نہیں اور اگر کسی کے دل میں یہ نیک خیال آ ہی جائے تو بحریہ ٹاؤن ڈی ایچ اے والے ایسی سونے کی چڑیا دکھاتے ہیں کہ صدقہ جاریہ کے سارے خواب دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور سکول تو کجا لوگ مسجد اور قبرستان کے لیے زمین وقف نہیں کرتے اب نہ زمین ہو گی اور نہ نیا سکول بنے گا ہمارا پیارا ملک جو پہلے ہی چند غیر سرکاری مدرسوں سے فارغ التحصیل گنتی کے دہشت گردوں کی بینٹ چڑا ہوا ہے اور یہ لوگ حکومت کے کنٹرول میں نہیں آ رہے اور ہزاروں جانوں اور کروڑوں کی عمارات تباہ کر چکے ہیں تو کیا کل حکومت ان این جی اوز اور ان کے زیرسایہ کام کرنے والے اداروں پر اپنی رٹ قائم رکھ پائے گی؟ یہ سوال ہے ان پالیسی سازوں کے لیے جو چند ٹکوں کے لیے ملک کی نظریاتی اساس(تعلیمی ادارے)فروخت کر وا رہے ہیں جب ادارے ان کے ہوں گے نصاب ان کی مرضی کا ہو گا اساتذہ ان کے تنخواہ دار ہوں گے تو پھر مرضی ان کی کہ وہ انجنئیر سائنسدان بنائیں محقق و محدث بنائیں یا دہشتگرد.ملک میں چلنے والے تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو حکومت ایک نصاب پر متفق نہ کر سکی ایک امتحانی دائیرہ کار میں نہیں لا سکتی تو پھر ان این جی اوز کو کیسے کنٹرول میں کرے گی جن کا سارا نظام غیر ملکی فنڈنگ پر چلتا ہے اور غیر ملکی ٹھیکدار ہی اس کو کنٹرول کرتے ہیں خدا را ان بنیادی اساسی ادا روں کو اس ٹھیکیداری نظام اور ان ٹھیکیداروں کے ہاتھوں میں جانے سے بچایا جائے۔{jcomments on}
146