ساٹھ سال پہلے کی بات ہے کہ امریکہ کی ایک ریاست اوہیو میں ایک چھوٹا سا واقعہ ہوا کم ازکم اس وقت تو معمولی ہی واقعہ دکھائی دیتا تھا لیکن بعد میں اس نے ہماری زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا۔دو عظیم بھائیوں آرول رانٹ اور ولبر نے وہ کر دکھایا جو کہ دنیا تسخیر کر لینے کے برابر تھا ۔ اس یادگار دن آرول رائٹ اپنے شہر ڈیوئن کی لائبریری میں گیا اور اس نے وہاں سے ایک کتاب نکلوائی جس میں لیکن تھال نامی ایک جرمن کی داستان حیات درج تھی جو ایک بڑی پتنگ میں بیٹھ کر اڑا کرتا تھا جس میں کوئی انجن استعمال نہ کرتا تھاآرول رائٹ پوری رات جاگتا رہا اور صبح تک اس کا مطالعہ پر تجسس اور حسرت اور خواہش بھرے انداز میں کیا واقعہ نے اس کے ذہن پر جادو سا کر دیا تھا اور اس نے اس داستان کا ذکر اپنے بھائی ولبر سے کیا دونوں بھائیوں نے مل کر ایک ایسا کام شروع کر دیا جو کہ ہوائی جہاز کی ایجاد پر ختم ہو ا اور جس نے ان کا نام زندہ جاوید بنا دیا۔قارئین خاص بات یہ ہے کہ دونوں بھائیوں نے کوئی خاص تعلیم حاصل نہ کی تھی وہ ہائی سکول تک بھی نہ پڑھے تھے لیکن ان کے پاس وہ مضبوط ارادے تھے زندگی میں اہم کام کرنے کے جو کسی سند سے محتاج نہ تھے جب وہ لڑکے تھے تو دونوں بھائی گاؤں گاؤں جا کر لوہا اور جانوروں کی ہڈیاں چنتے جنہیں وہ کباڑیے اور کھاد والے کارخانے میں بیچ کر اپنا خرچ نکالتے لیکن کچھ کر گزرنے کی ایسی لگن تھی کہ ان کی جوانی کے دور میں ان کے باپ نے ان سے کہا کہ ہوائی جہاز اور شادی دونوں میں سے کسی ایک چیز کا اپنے لیے انتخاب کر لو تو دونوں نے ساری زندگی شادی نہ کی ۔اور ایک عظیم ایجاد دنیا کے سامنے پیش کر دی جس پر نٹھ کر آج کے دور کے بادشاہ اور حکمران فضاؤں میں سفر کرتے ہوئے رابطہ عوام مہم چلاتے ہیں۔قارئین ساٹھ سال پہلے ہم کہا ں تھے اورآج ہم کہاں ہیں لیکن ساٹھ سال پہلے ہمار ا عظیم ہمسایہ ملک چین کہاں کھڑ اتھا اورآج وہ کہاں کھڑا ہے ۔ فرق ارادوں کا ہے ان کی پختگی کا ہے ہمارے سیاستدان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی حربہ جانے نہیں دیتے وہ چاہے آج کے دور کی بات ہو یا آج سے دس بیس ‘ تیس یا چالیس سال ایوب دور اور فاطمہ جناح کا الیکشن بھی عوام بھولی نہیں ہوگی۔ہم نے کیا بنایا قارئین ہمارے حکمرانو کے ارادوں میں اگر کہیں کمی ہوتی ہے یہ بھی غلط ہے وہ بھی پختہ عزم لے کر حکومت میں آتے ہیں لیکن ان کا عزم کچھ اور ہوتا ہے ان کا مطمغ نظر کچھ اور ہوتا ہے کروڑوں اربوں روپے لگا کر وہ حکومتیں بناتے ہیں لیکن وہی پیسہ کئی گنا بڑھا کر عوام کی جیبوں سے نکال لیا جاتا ہے اور وہ اپنے یہی پختہ ارادے لے کر آتے ہیں جن کے حصول کیلئے وہ پہلے دن سے ہی لگ پڑتے ہیں کہیں نندی پور پراکیاسی ارب جھونک دیے جاتے ہیں لیکن غریبوں کے نومولود بچوں کو ہسپتالوں میں چوہے نوچتے رہتے ہیں اور سرکاری سکولوں میں بچے بنیادی سہولیات سے ہی محروم رہتے ہیں۔اور جن پرمسٹر ٹین پرسنٹ جیسے لیبل اور سرے محل جیسے تذکرے زبان زد عام ہوں وہ ملکی صدارت کے منصب پر بھی پہنچ جایا کرتے ہیں ۔ کھلاڑی ملک کی ترقی کے خواب دکھلاتے ہیں اور ایٹم بم کے موجد اور سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے لوگوں کو ذلیل و خوار کر دیا جاتا ہے۔ آج کل چرچا ہے NA-122کے الیکشن کا جیسے پورا ملک اسی بخار میں مبتلا ہوچکا ہو ٹی وی پر اشتہار چل رہے ہیں لاہور دلہن کی طرح تصاویر سے سجاد یا گیا لیکن کروڑوں روپے ایک حلقہ میں خرچ کر دینے کے بعد بھی جو رزلٹ آئے گا یقیناًہارنے والی جو بھی پارٹی ہو دھاندلی کا را گ الاپنا شروع کر دے گی گویا سار ا عمل بے معنی اور بے کار ہو جائے گا۔اور پھر وہی سیاست اور سیاست دان اور ان کے ہاتھوں کھلونا بنے ہم عوام کھیل تماشا جاری رہے گا۔ کیونکہ آرول رائٹ اور ولبر جیسے پختہ ارادوں والوں کا ہمارے حکمران طبقے میں قحط ہے۔{jcomments on}
79