124

تحصیل گوجرخان کی پسماندگی کی وجوہات

چوہدری عزیز الرحمن
اکیسویں صدی عیسوی میں کسی ترقی پذیر ملک میں اس کے اندر رہنے والے عوام کی بنیادی ضروریات میں پانی بجلی گیس تعلیم اور ذرائع آمدورفت کو بہت اہمیت حاصل ہے حالانکہ ترقی یافتہ ممالک میں رہائش کھانا پینا مفت تعلیم اور صحت بچوں کے بالغ ہونے تک انکے تمام اخراجات میں ان کا ہاتھ بٹاناتک بنیادی ضروریات میں شامل ہوتاہے۔چونکہ ہم ایک ترقی پزیرملک کے باسی ہیں اس لیے ہمارے زہنوں پر اب تک جو بنیادی ضروریات سوار ہیں وہ پانی گیس بجلی سڑکیں ہی ہیں ہم نا خواندہ قوم ہیں ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم کوئی بنیادی ضرورت نہیں لگتی، تحصیل گوجرخان پاکستان کی پسماندہ ترین تحصیلوں میں شمار ہوتی ہے بجلی اور گیس کی بات تو دور ابھی تک اس تحصیل کی رابطہ سڑکو ں کی حالت زار دیکھ کر پتھر کا زمانہ یاد آتا ہے کلر سیداں تا بیول اور سوئیں چوک تا گوجرخان روڈ پرویز مشرف کے دور میں بنی جس وقت حالیہ ایم این اے جاوید اخلاص ضلع ناظم کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے ،اس وقت سے آجتک کروڑوں روپے کی لاگت سے بار بار اس سڑک پر ٹاکیاں لگا کر اس پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی گئی بلکہ پوٹھواری کی کہاوت کے مطابق کام کو سوہا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن پھر ایک ڈیڑھ ماہ میں دوبارہ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی،سوئیں چوک تا بینک چوک کنوہا جو زمانہ قدیم میں بنائی گئی اس کا حال بہت ہی ناگفتہ بہ ہے اور اس کی بڑی وجہ دو حلقوں اور دو تحصیلوں پر مشتمل ہونا ہے،یہ تیں سڑکیں گوجر خان کلر سیداں اور کشمیر کو آپس میں ملانے والی اہم شاہراہیں سمجھی جاتی ہیں ان کی حالت زا رکا احوال ایسا ہے تو باقی کی لنگ روڈز اور گلی محلوں کی حالت کو سمجھنا کوئی مشکل بات نہیں ‘واٹر سپلائی صرف شہر گوجرخان اور اس سے ملحقہ علاقوں تک محدود ہے گیس بڑے بڑے سیاستدانوں اور اثر رسوخ والے لوگوں کی دہلیز تک میسر ہے باقی یونین کونسلز اور گاؤں اس سے یکسر محروم ہیں،تعلیمی معیار نہ ہونے کیے برابر ہے اس سب کی بڑی وجہ منتخب نمائندگان کی عدم دلچسپی ہے سابق صدر مشرف کے دور کے بعد پانچ سالہ پی پی پی کے دور میں راجہ پرویز اشرف وفاقی وزیر پانی و بجلی رہے بعد ازاں ان کو وزارت عظمیٰ بھی ملی لیکن چند علیک سلیک کے لوگوں میں چھ چھ کروڑ بائی ہینڈ دینے کے علاوہ انہوں نے تحصیل کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا طارق کیا نی بھی پارٹی سے دلبرداشتہ ہونے کی وجہ سے تحصیل کی ترقی میں اپنا بھرپور حصہ نہیں ڈال سکے 2013 کے انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ کے نامزد امیدواران بھاری اکثریت سے کئی سالہ ناکامی کے بعد کامیاب ہوئے اس کی بڑی وجہ نمائندگان کی تبدیلی تھی لیکن بدقسمتی سے ایک بار پھر عوام دھوکے میں رہے اور چار سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک گیس پانی تو دور کی بات مین رابطہ سڑکوں کی مرمت تک نہیں ہو سکی حالانکہ عوام کا پرزور مطالبہ رہا ہے کہ مین شاہراہوں کو دو رویہ اور کارپٹ بنایا جائے تاکہ بار بار مرمت سے ملکی پیسہ ضائع نہ ہو کچھ دنوں سے شوکت بھٹی اور راجہ جاوید اخلاص چھوٹی چھوٹی گلیوں کا افتتاح اور مرنے والوں پر فاتحہ پڑھ کر عوام کو دوبارہ اپنے جال میں پھنسانے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیگی نمائندگان کی اس بے حسی کے باعث این اے اکاون اور صوبائی حلقوں میں عوام مسلم لیگ ن سے بد زن نظر آتے ہیں، تحصیل کلرسیداں کو چوہدری نثار علی خان دورویہ سڑک بائی پاس کارپٹ سڑکیں گیس بجلی پانی ویسٹ مینجمنٹ 1122ٹی ایچ کیو کی بہتری اور اربوں روپے کے منصوبے دے سکتے ہیں تو راجہ جاوید اخلاص وزیراعظم کے پارلیمانی سیکرٹری ہو کر اپنے حلقے میں کوئی کام کیوں نہیں کروا سکے،ایم پی اے شوکت عزیز اور افتخار وارثی حکومتی پارٹی کے منتخب ممبران اسمبلی ہو کر ترقیاتی کاموں میں سب سے پیچھے کیوں رہے اس کی وجہ کا تحصیل گوجرخان کے عوام کی نا خواندگی ہے یا انہوں نے حلقہ کی عوام کو اپنا زر خرید غلام سمجھ رکھا ہے ،
تحصیل گوجرخان کی حالت زار بتا رہی ہے کہ اس بار عوام کا سمندر ان فصلی بٹیروں اور بے حس عوامی نمائندگان کو خس و خاشاک کی طرح بالکل اسی طرح بہا لے جائے گا جس طرح انہوں نے عوام کی امیدوں پر پانی پھیرا ہے ،بلدیات میں ٹکٹس کی غلط تقسیم اور عوامی مسائل پر عدم توجہی ان منتخب نمائندگان کو 2018 کے قومی انتخابات میں شکست سے دوچار کریں گے ،ان امیدواران کے میدان میں رہتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑے گا اور پی ٹی آئی اور پی پی پی نے اگر اتحاد کر لیا تو ان کے میدان اور بھی صاف ہو جا ئے گا۔ تحصیل گوجرخان میں پاکستان مسلم لیگ کو اپنی شکست سے بچنے کے لیے آخری سال عوامی مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے امیدواران کو بھی تبدیل کرنا پڑے گا بصورت دیگر مسلم لیگ نواز بڑی ناکامی کا منہ دیکھنے کے لے تیار رہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں