وقت کے پہلو بہ پہلو انسان کی معاشرتی، معاشی اور سماجی ضروریات بھی بدلتی رہتی ہیں جس کے پیش نظر بہتر سے بہترین کا متلاشی انسان نظامِ زندگی سے منسلک تمام شعبوں میں تبدیلی کے عنصر کو بوقت ضرورت شامل کرتا رہتا ہے۔ جیسا کہ حکومت اور اس کے ذیلی ادارے کسی ضابطے یا قانون کے تحت اپنے فرائض انجام دیتے ہیں مگر بدلتے تقاضوں کے تناظر میں بعض مروجہ قوانین غیر موثر ہوجاتے ہیں چنانچہ اُنہیں حالاتِ حاضرہ کے تقاضوں اور ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کی غرض سے اُن میں تبدیلی یا ترامیم لائی جاتی ہیں۔ الغرض رفتارِ زمانہ کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام شعبوں میں ’’تبدیلی‘‘ کا عمل ناگزیر ہوجاتا ہے۔ چوں کہ اِس کے پس منظر میں بہتری کی اُمیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ چنانچہ اِسی اصول کے زیرِ اثر مسلمانانِ ہند کے دِل و دماغ میں ہندو اکثریتی معاشرے کی متعصبانہ اور امتیازی سلوک کے ردِّ عمل کے نتیجے میں ایک خود مختار مسلم ریاست کی اُمنگ نے جنم لیا۔ جہاں اُنہیں مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ بنیادی حقوق کا تحفظ بھی حاصل ہو۔ ریاست تو مل گئی مگر اِس کے حصول سے وابستہ نظریات کا عملی نفاذ اب بھی ایک خواہش کی صورت میں جوں کی توں برقرار ہے۔ عملاً اِس ملک کے ساتھ کچھ یُوں ہوا کہ قیام کے فوراً بعد ایسی قوتیں مسندِ اقتدار پر قابض ہوگئیں جنہیں اِس کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے تحفظ سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی عوامی فلاح و بہبود کی کوئی فکر تھی۔ اُن کے اقتدار کا محور محض شخصی مفادات کا حصول ہی رہا۔ اور اِس گومگو والی صورتِ حال میں 69 سال بیت گئے۔ اِس دوران کیا کھویا اور کیا پایا ۔ سب کچھ روزِ روشن کی طرح ہمارے سامنے ہے۔ ’’پانے‘‘ والا پلڑا زمین سے اُٹھا ہوا اور ’’کھونے‘‘ والا زمین کو چُھوتا دکھائی دے رہا ہے۔ چوں کہ وہ وزن میں بہت بھاری ہے۔ سرفہرست آدھے ملک کا جدا ہوجانا اور باقی ماندہ کی بقا کی جنگ جس کا ہم سامنا کررہے ہیں۔ شومئے قسمت کہ اب تک اِس ملک میں طرزِ حکمرانی کے ہی تجربات ہوتے رہے۔ کبھی صدارتی، کبھی پارلیمانی اور کبھی ان دونوں سے ہٹ کر مارشل لاء کا تڑکا بھی لگتا رہا۔ اور بالآخر موجودہ نظام کو کچھ عرصے سے ذاتی اور سیاسی مصلحتوں کے تحت ’’باریوں‘‘ کی بیساکھیوں سے ٹھہراؤ نصیب ہوا۔ یہ نظامِ حکومت دوسرے ممالک میں کتنی کامیابی اور موثر انداز سے نافذ العمل ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں یہ عوام کو کچھ “Deliver” نہیں کرسکا۔ لہذا یہاں یہ کہنا کہ خرابی نظام میں نہیں ناظم میں ہے شاید بے جا نہ ہوگا۔ دراصل ہمارے حکمران ملک و ملت سے مخلص نہیں۔ اُن کی تمام تر توجہ ذاتی مفادات پر مرکوز رہتی ہے۔ اور وہ ہمہ وقت جائز و ناجائز ہر طریقے سے ذاتی اثاثہ جات بنانے اور انہیں بیرونی ممالک منتقل کرکے اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ عوامی مسائل سے عدم تعلقی اور عدم توجہی کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ بے راہ روی کے ڈگر پر چل پڑا۔ جس سے کرپشن، رشوت، دہشت گردی، انتہا پسندی، بے روزگاری، مہنگائی، مافیا گردی اور اغوا برائے تاوان جیسے گھناؤنے جرائم نے ہمیں اپنے چنگل میں پھنسا لیا۔ جس سے چھٹکارا اتنا آسان نہیں۔ کوئی جتنا صاحبِ اختیار اتنا ہی کسی بڑی برائی کا سرپرست اعلےٰ ہے۔ ہمارا احتسابی اور عدالتی نظام بھی کچھ ایسا ہے کہ وہ کرپشن کے شکایت کنندہ کو ہی تمام ثبوت فراہم کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ جو اُس کے بس سے باہر ہوتا ہے۔ چوں کہ تمام شواہد اور تفصیلات تو متعلقہ محکمے یا ادارے کے پاس ہوتے ہیں لہذا اِسی قانونی سقم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اب تک منظر عام پر آنے والے مالیاتی “Mega scandals” میں کسی کو سزا ہوئی نہ “Recovery” عمل میں آئی۔ اِس لئے کہ یہاں ہر بااثر شخص قانون سے مبرا ہے۔ دوہرے معیار کے حامل نظامِ عدل و انصاف سے عوام میں مایوسی اور قومی مسائل سے عدم دلچسپی پیدا ہوئی جس نے عوام کو جذبہ حب الوطنی سے بھی محروم اور بے حس کردیا ہے۔ ایسی کیفیت سے حکمران مطلق العنانی اور من مانی کی جانب مائل ہوتے ہیں۔ اور یہی سب کچھ ہوتا نظر آرہا ہے۔ جو ایک خطرناک صورتِ حال کی منظر کشی کررہا ہے۔ ملکی اور قومی بہبود و ترقی کی حامل ’’تبدیلی‘‘ کی تڑپ اب بھی عوام اپنے دلوں میں سموئے بیٹھے ہیں۔ اور اگر “Statusquo” برقرار رہا تو بحیثیت قوم ہماری ساکھ بہت کمزور اور ماند پڑ جائے گی۔ اور اِس جرم کی سزا یقینی موت ہے۔ کیوں کہ بقول علامہ اقبالؒ :
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات{jcomments on}
73