90

تبدیلی جذباتی تقریروںیاناچ گانے سے نہیں آتی/قاضی محمد عمران

انسانی نظام حیات کے تہذیب یافتہ ہونے کے بعد اجتماعی مفادات اور بہتر معاشرے کے لیے کچھ نظام ہائے حکومت و اختیار متعارف کرائے گئے جو انسانی تہذیب کے صدیوں کے ثمرات میں سے ہے۔ انسانیت کا سب سے اعلیٰ معاشرہ مدینۃالنبیﷺ میں اس وقت وجود میں آیا جب رحمۃ اللعالمینﷺ نے مہاجرین مکہ اور انصار مدینہ کے مابین مواخات کا رشتہ استوار کیا۔ اسلام نے حکومت اور اختیارات کے لیے خلافت کا منصفانہ اور عادلانہ نظام متعارف کرایا۔یہی نظام ہی تھا جس کی بدولت اسلامی سلطنت کا پرچم آدھی دنیا پر لہرانے لگا۔یہ وہ نظام تھا جس میں بادشاہ وقت کی تنخواہ ایک مزدور کے برابر مقرر کی جاتی، بادشاہ رات کی تاریکی میں اپنی رعایا کا احوال جانچنے کے لیے گلیوں اور بازاروں میں گشت کرتے، تقوی ٰ اورخشیت الٰہی کا یہ عالم تھا کہ قدرت خداوندی نے صرف انسان ہی نہیں بلکہ نباتات و جمادات پر بھی ان کی حکومت قائم کردی، زمین پر زلزلہ جاری ہو تو پاؤں کے ٹھوکر سے اسے روک دیتے۔اگرچہ خلافت راشدہ کا زمانہ زیادہ طویل نہ تھا مگر خلافت بحر حال مسلم امت میں کم و بیش تیرہ صدیاں قائم رہی۔ بنو عباس اور بنو امیہ کے حاکمین میں بہت خامیاں مورخین نے لکھیں ہیں مگر چونکہ اس زمانے میں فرنگی کے وضع کردہ نظام جمہوریت و آمریت کا سایہ ابھی مسلم حکمرانوں پر نہ پڑا تھا اس لیے عوام کے لیے انصاف کی راہیں آسان تھیں۔ ہر شخص خوشحال تھا۔ علم و فن میں امت مسلمہ کے عروج کا یہی زمانہ مورخین نے اعتراف کیا ہے۔متفرق علوم و فنون کی بنیادیں اسی دور میں واضح ہوئیں ۔ یہی وہ دور تھا جب آج کے یورپ اور امریکہ کے افراد تحصیل علم کے لیے بغداد کا رخ کرتے۔ اس تمام عرصہ میں بیرونی اور خارجہ حالات جیسے بھی ہوں ، کبھی کسی نے مفلسی کے ڈر سے اپنی اولادیں نہیں بیچیں، غربت کے خوف سے عزتیں نیلا م نہیں ہوئیں۔یہی وہ دور تھا کہ ہر مسلمان حفظ، تفسیر، علم الحدیث، علم الکلام، فقہ، تصوف اور ریاضی ، فلسفہ و ہیت جیسے علوم بلا تفریق دینی و دنیاوی حاصل کرنا اپنے لیے فخر اور عزت کا باعث تصور کرتا تھا۔جب علما بلاتفریق ان علوم و فنون پر حکومتی سرپرستی میں تحقیقی خدمت سرانجام دیتے اور انہیں تحصیل وترویج علم پر اس قدر انعام و اکرام عطا کیے جاتے کہ انہیں مفلسی کے خوف سے حق گوئی پر قطعاً سمجھوتہ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ علما معاشرے کے معزز ترین افراد تصور کیے جاتے انہیں بادشاہوں کے درباروں میں خصوصی عزت و مقا م سے نوازا جاتا۔جب دربار ی اور حکومتی امور کی انجام دہی کے لیے ملازمتیں اہلیت اور قابلیت کی بنیاد پر دی جاتیں، ہر شخص سنت رسول ﷺ اور سنت صحابہ کی پیروی میں کاروبار اور تجارت کو ذریعہ معاش بناتا۔ جب سودی لین دین ایک سنگین جرم تصور کیاجاتا۔ جب زکوٰۃ دینے والے گلیوں اور بازاروں میں چلتے پھرتے پر لینے والانہ ملتا۔جب انصاف کے لیے عدالتیں کسی اینگلو سیکسن لا کی مرہون منت نہ تھیں بلکہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق فیصلے صادر کیے جاتے اور کبھی کبھار حاکم وقت کو بھی عدالت میں مجرم کی حیثیت سے حاضر ہونا پڑتا اور اسے کسی قسم کی استثنا حاصل نہ ہوتی۔ یہ ایک اجمالی منظر نامہ ہے خلافت راشدہ سے لے کر بر صغیر میں مغل حکومت کے اختتام تک کا۔آج کے مسلمان نے جس دور میں جنم لیا اسے جمہوریت اور آمریت کے دو نظام سکھائے گئے اور نظام خلافت سے دانستہ نابلد رکھنے کی ہر ممکن سعی کی گئی ۔ درحقیقت جمہوریت اور آمریت دونوں ہی فرنگی تخیلات کی پیداوار ہیں اور دونوں ہی نے ناانصافی اور ظلم کے سوا کچھ نہیں دیا۔ جمہوریت کی مضبوطی میں سودی معیشت کے دفاع کا راز پوشیدہ ہے ۔خلیفہ وقت کا انتخاب جید اور معتبر ترین شخصیات کی مشاورت سے کیا جاتا تھا نہ کہ عوامی رائے دہی سے۔ آج کی نوجوان نسل کے سامنے جمہوریت کی مضبوطی کے وسیلے سے جس انقلاب کی امیدیں دلائیں جا رہی ہیں وہ فقط جھوٹ اور پراپیگنڈہ ہے۔ سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ خلافت کا قیام آج کی دنیا میں ممکن نہیں، اگر جمہوریت کے ناکام اور ظالمانہ نظام کو نافذ العمل کیاجاسکتا ہے تو یقیناًخلافت کے اصول و ضوابط کا جائزہ لے کر اسے آج کے ماحول میں نافذ کیا جاسکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وطن کا ہر شہری اپنے اسلاف کی تاریخ کا مطالعہ اور ان کے دیے ہوئے سنہری اصولوں کے پیمانے پر آج کے نظام ہائے حکومت کو پرکھے اور جہاں اصلاح کی ضرورت ہے وہاں قانون سازی کی جائے اور عوامی رائے دہی کے بجائے شرعی رائے دہی کو معتبر جانے۔ اس وقت پاکستان میں رائج نام نہاد جمہوریت نے فقط بدمعاش ، خائن اور جاہل افراد کو اقتدار تک پہنچایا ہے۔پاکستان کے پڑھے لکھے اور باشعو عوام اس فرسودہ نظام سے نجات چاہتے ہیں مگر یہ نجات فقط جذباتی تقریروں یا ناچ گانے سے نہیں بلکہ اسلامی نظام حکومت اور خلافت کے قیام سے ممکن ہے۔یہ فرسودہ نظام ہائے حکومت جو آج رائج ہے اپنی موت آپ مر رہا ہے اسی نظام کی ترویج میں دشمنان اسلام کے مفادات پوشیدہ ہیں۔ موجودہ دور میں جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ تہذیبی، علمی ، معاشی و سماجی نظام پر قابو حاصل کرنے کے ذرائع سے لڑی جارہی ہیں۔ دجالی نظام سے وابستہ الومیناتی، فری مسینری اور زیانیسٹ تحریکیں ہمارے سیاستدانوں، اعلیٰ عدلیہ، قانون ساز اداروں حتیٰ کہ علما اور تعلیمی اداروں پر اپنا اختیار حاصل کر چکیں ہیں ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں