جو کچھ اس قوم کے ساتھ ہورہا ہے وہ بہت ہی روح فرسا اور اندوہناک ہے دنیا کے کسی خطے میں عوام کا خون اس طرح نہیں پیا جاتا جس طرح ہمارے وطن میں خون آشامی ہورہی ہے ہر طرف ایسی ہوشرباء وارداتوں کا تسلسل ہے کہ ان کے درمیان قوم گذشتہ پچھتر برسوں سے کسی اچھے کی امید پر ماہ وسال گذار رہی ہے لیکن اچھے کی امید اب شاید دم توڑ رہی ہے۔ جب ریاست اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہو تو پھر ملک قصاب خانہ بن جاتا ہے۔اختیار رکھنے والے بے اختیاروں کو نگل رہے ہیں۔قانون بے توقیرکردیا گیا ہے۔ بہتری کی امید لیے پاکستان بنانے والی نسل راہ عدم سدھار گئی ان کی دوسری نسل یعنی ہماری طرح کے خمیدہ کمر والے اپنی نئی نسل کے لیے فکر مند ہیں کہ بہتری کے آثار نظر نہیں آتے ہم اپنی روح کے ابتلا سے نجات نہیں پاسکے۔ پیسے کی ہوس نے انسان کو انسان نہیں رہنے دیا۔ڈاکٹر کے روپ میں مسیحا بھی مسیحا نہ رہے۔گذشتہ دنوں بیول انٹرنیشنل ہسپتال میں ایک سیزر کے دوران بچی کی ہلاکت کے بعد بچی کے لواحقین کی جانب سے آپریشن کرنے والی ڈاکٹر سعدیہ فہیم پر غفلت کا الزام عائد کیا۔بیول کے نواحی گاوں سموٹ دھمنوہا کے رہائشی ارسلان محمود نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ ان کی ہمشیرہ کی پہلے دو بچیاں ہیں دونوں بار نارمل ڈلیوری ہوئی جبکہ اس بار ڈاکٹر سعدیہ فہیم نے صرف پیسے کے لیے نارمل ڈلیوری کو سی سیکشن میں منتقل کیا۔ارسلان محمود کے مطابق چودہ فروری کے روز ڈاکٹر سعدیہ نے ان کی بہن کاآپریشن کیا اور آپریشن کے بعد ہمیں بتایا گیا کہ ان کی حالت بلکل ٹھیک ہے۔اس دوران ہمیں ان سے ملنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔آپریشن کے بعد چند ہی منٹ بعد ان کی ہمشیرہ کی طبیعت بگڑ گئی جس پر عملے کے ایک شخص نے ڈاکٹر کواس بارے اطلاع دی اس دوران بھی ان کی بہن وہاں اکیلی تھیں۔حالت خراب ہونے پر ڈاکٹر نے انہیں انجکشن وغیرہ دیے اور ہمیں انہیں فوراً راولپنڈی لے جانے کا مشورہ دیا۔ارسلان محمود نے بتایا کہ ان کی بہن کی حالت خراب ہونے کے باوجود کوئی ڈاکٹر انہیں ٹریمنٹ دینے نہیں آیا۔بہن کو ایمبولینس میں شفٹ کرنے میں بھی وہاں موجود دیگر لوگوں نے میری مدد کی تاہم اس دوران ان کی بہن زندگی کی بازی ہار گئی۔جبکہ بچے کو بھی تشویناک حالت میں راولپنڈی ریفر کردیا گیا جہاں وہ جاں بر نہ ہوسکا۔ارسلان محمود نے الزام لگایا کہ ان کی بہن اور بچہ ڈاکٹر سعدیہ فہیم غفلت کی بھینٹ چڑھ گئے۔جس کے لیے وہ ڈاکٹر سعدیہ کو کسی طور معاف نہیں کرسکتے۔ارسلان محمود نے بتایا کہ اسپتال میں بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی دیکھ بھال کا کوئی موثر نظام بھی موجود نہیں ہے جس کے باعث یہاں پیدا ہونے والے بچے سیف نہیں ہوتے۔ارسلان محمود نے کہا کہ اُن کی اسپتال یا اسپتال کے کسی فرد سے ذاتی دشمنی نہیں ہے البتہ وہ ڈاکٹر سعدیہ کے خلاف بھرپور قانونی کاروائی کریں گے تاکہ ہمارے بعد کوئی فیملی اس ڈاکٹر کی ہوس زر کی بھینٹ نہ چڑھے۔اگر آج ہم خاموش ہورہے تو یہ ظلم جاری رہے گا کیونکہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ارسلان محمود نے بتایا کہ ان پر اس حوالے سے کافی دباؤ ہے اور بیول کی ایک سیاسی شخصیت اس معاملے میں دباو ڈال رہی ہے لیکن وہ تمام تر دباو کے باوجود اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔انہوں نے اس سلسلے میں پولیس چوکی قاضیاں میں اندراج مقدمہ کے لیے درخواست دے دی ہے۔
111