بھارت کے ساتھ تعلقات مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط 211

بھارت کے ساتھ تعلقات مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط

بھارت پاکستان کا ایک ایسا ہمسایہ دشمن ہے جس نے ہر دم پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات کی خواہش ظاہر کی بلکہ صرف خواہش ہی نہیں اچھے تعلقات کے لیے کئی بار کوشش بھی کئی۔ اس کے لیے از خود پاکستان نے کئی بار بھارت کو پیغامات بھیجے اور بہت سے مواقع پر عالمی برادری کو بھی ثالثی کے لیے کہا لیکن بھارت نے کبھی پاکستان کے نیک نیتی پر مبنی پیغامات کا کوئی مثبت جواب دیا اور نہ ہی کسی اور ملک کی ثالثی کی پیشکش قبول کی۔ بھارت نے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لانے کے لیے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کی کاوشوں کو ٹھکرا دیا اور ہر موقع پر خطے میں امن و امان کے لیے خطرہ ثابت ہوا۔ ویسے تو پاکستان اور بھار ت کے درمیان ہمیشہ ہی نفرت رہی لیکن مودی سرکار نے اس آگ کو خوب بھڑکایا اور پاکستان، بھارت کے تعلقات اپنی خرابی کی عروج پر پہنچ گئے۔ مودی سرکار جس تنظیم سے تعلق رکھنے کی وجہ سے مشہور ہے وہ تنظیم مسلم دشمنی میں اپنی مثال نہیں رکھتی۔ مذہبی شدت پسندی اس تنظیم کا خاصا ہے اور ہندوؤں کے علاوہ تمام ادیان کے ماننے والوں کے خلاف انتہائی بغض رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف تو ان کے بغض کی کوئی حد نہیں ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے، بہت سے مسلمانوں کو قتل کیا اور بہت سے مسلمانوں کو بے گھر کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ایسی تنظیم کے ساتھ تعلقات نے مودی میں بھی مسلم دشمنی بھر دی جس کی وجہ سے بھارت اور ہمسایہ ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کا جینا حرام ہو چکا ہے۔، کشمیریوں کو آزادی کے مطالبے پر ہر طرح کی سزائیں دی گئی ہیں، لاکھوں کشمیریوں کو شہید کیا جا چکا ہے لیکن جب سے مودی سرکار نے حکومت سنبھالی ہے تب سے کشمیر میں ظلم و ستم انتہاؤں کو چھو رہا ہے، بھارتی ہر نیا ہتھیار کشمیریوں پر آزماتے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کشمیر کو بھارتیوں نے خطرناک ہتھیاروں کی تجربہ گاہ بنا رکھاہے۔ پیلٹ گنیں اور بینائی کو ختم کرنے والے ہتھیار بڑی مقدار میں کشمیریوں پر آزمائے گئے۔ مودی سرکار نے کشمیر میں تاریخ کا طویل ترین لاک ڈاؤن کر رکھا ہے اور کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کیا ہوا ہے۔ اب چند روز سے پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کی پینگیں بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہیں، پہلے مودی نے خط لکھ کر دوستی کی ابتداء کی اور پھر عمران خان نے جوابی خط لکھ کر انہیں دوستی کا مثبت جواب دیا لیکن ابتداء میں ان تمام رسوم میں کہیں مسئلہ کشمیر کا تذکرہ نہیں تھا، اگر پاکستان کشمیر کا نام لے تو یقینا مودی کی ساری دوستی کی خواہشات دم توڑ جائیں گی تو ایسی دوستی کی ہمیں کیا ضرورت ہے جس کے لیے کشمیر کی قربانی دینی پڑے۔ ہمیں ایسی کسی بھی دوستی و پیشکش سے کوئی غرض نہیں ہے جس میں کشمیر کے سودے کی بو آتی ہوکشمیریوں نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ محبت کا اظہار کیا، وہ گولیوں کی بوچھاڑ میں پاکستان کا پرچم لہراتے ہیں، متعصب اور درندہ صفت بھارتی فوجیوں کے سامنے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں، حالانکہ وہ اس کے انجام سے بخوبی واقف ہیں لیکن وہ پاکستان کے ساتھ اپنی والہانہ محبت کو چھپا نہیں سکتے، وہ اپنے شہداء کو بھی پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفناتے ہیں، اس سے بڑی محبت کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے؟ اس سب سے بڑھ کو وہ ہمارے بھائی ہیں جو کفار کے نرغے میں ہیں اور انہیں آزادی دلانا ہمارا فرض ہے۔ اگر دشمن ہم سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہوتا تب بھی اس کے خلاف جہاد کرنا اور مسلمانوں کو ان کے مظالم سے رہائی دلانا فرض تھا کیونکہ مسلمان کی تو یہی شان ہے کہ وہ طاقت اور سازو سامان نہیں ایمان کے بل بوتے پر لڑتا ہے لیکن یہاں تو دشمن بھی برابرکا ہے ہم سے زیادہ اسلحہ اور جنگی سازو سامان وہ نہیں رکھتا، اگر ان کے پاس ایٹم بم ہے تو الحمد للہ، اللہ رب العزت نے وہ ہمیں بھی عطا کیا ہے، پھر سب سے بڑھ کر ہمارے پاس ایمان کی دولت ہے جس سے وہ یکسر محروم ہیں۔ ایسی صورت میں تو ہماری ذمہ داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستی بہت ضروری ہوتی ہے۔ خطے میں امن و امان کے علاوہ معاشی لحاظ سے بھی ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات نہایت سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ جہاں ہمسایہ ممالک میں تعلقات بہتر ہوں وہاں خطے میں معاشی خوشحالی ہوتی ہے لیکن جہاں ہمسایہ ممالک کے تعلقات خراب ہوں وہاں کے معاشی حالات بھی نہایت ابتر ہوتے ہیں۔ موجودہ دور معاشی دوڑ کا ہے، اس لیے معاشی ترقی کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات نہایت ضروری ہیں لیکن ان تعلقات کے لیے ہم لاکھوں مسلمانوں کی قربانی نہیں دے سکتے۔ بھار ت کے ساتھ ہر طرح کے تعلقات مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ مشروط ہونے چاہیئیں۔اب حکومت نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو مسئلہئ کشمیر کے حل کے ساتھ مشروط کر کے ایک نہایت قابل تحسین فریضہ سرانجام دیا ہے جو پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ اس سے پوری دنیا پر یہ باور کرایا جا سکے گا کہ مسئلہئ کشمیر کا حل ہمارے لیے اتنا ضروری ہے کہ ہم اس کے لیے اپنا نقصان بھی برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن کبھی کشمیر کا سودا نہیں کریں گے۔ امید ہے کہ حکومت آئندہ بھی بھارت کے ساتھ قائم ہونے والے تمام تر تعلقات کو مسئلہئ کشمیر کے حل کے ساتھ مشروط رکھے گی

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں