185

بچپن کے دکھ /عبدالجبار چودھری

زندگی کے ابتدائی دنوں کو یاد کرنا بچپن کی یاد کہلاتا ہے بچپن بھی زندگی کے ہر دور کی طرح دکھ سکھ خوشی اور آسودگی کا حامل ہوتا ہے بچپن کے دکھ بھی بہت گہرے ہوتے ہیں غربت ہو یا امارت اگر ماں کا سایہ چھن جائے تو بچپن کے اس دکھ کو کون بھول سکتا ہے میں نے بہت سے بڑوں

سے سن رکھا ہے کہ شاید بچے کو باپ کے سہارے کے بغیر ماں کسی نہ کسی طرح پال لیتی ہیں مگر یہ مرحلہ اگر باپ کے سر آجائے تو اس کے لیئے بہت ہی مشکل ہوتا ہے جن بچوں کی مائیں بچپن میں گزر جاتی ہیں یا چھن جاتی ہیں مجبوریاں چھین کر لے جاتی ہیں ان بچوں کودیکھیں تو ہر وقت ان کی نگا ہیں کچھ نہ کچھ تلاش کرتی دکھائی دیں گی ایک دفعہ ساتھ بیٹھے مسافر نے مجھے اچانک اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے اپنے بچپن کے بارے میں بتانا شروع کر دیا

کہ ہماری ماں اکثر بیمار رہتی تھیں اور بعض اوقات کئی کئی دن ہسپتال میں داخل رہنا پڑتا تھا ہم بھائی بڑے تھے اور نہ ہی بہت چھوٹے اس وجہ سے بھائی آپس میں گھریلو کام بانٹ لیتے تھے کپڑے ‘برتن اس سلیقے سے دھوتے کہ ماں کی کمی محسوس ہی نہ ہوتی ہنڈیا پکانی ہو یا روٹیاں، چائے بنانی ہو یا جھاڑو لگا نا ہم سارے کام کر لیتے ماں کے بغیر دھوپ چھاؤں، سرد گرم اور نجانے کون کون سے احساسات مٹ جاتے ہیں

بچپن کا ایک اور دکھ خواہشات یعنی من پسند کھلونوں کا نہ ملنا ہے وسائل کی کمی مٹی کے کھلونوں کو بنانے پر مجبور کرتی ہے اور پھر ان کھلونوں سے کھیلنا بھی پڑتا ہے بچپن میں خود سری اور ضد کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے لیکن جو محرومیوں کے شکار ہوں ضد تو درکنار ان کی آنکھیں اکثر چھلکتی رہتی ہیں جس طرح جنگ کے شکار ملکوں کے لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا ہے اسی طرح ماں اور باپ کے درمیان جنگ کا سب سے بڑا نقصان بچوں کو ہوتا ہے جو ہر وقت سہمے ہچکچا ہٹ کا شکار اور ہمدردی کے لیے تقسیم نظر آتے ہیں ایک اور بات بھی عام ہے کہ بعض بچے اپنی ماںیا باپ کی وجہ سے بھی قابل نفرت ٹھہرتے ہیں ان کو حقارت بھری نگاہوں کا سامنا رہتا ہے

غربت نے بچوں کو تہذیب سکھا دی سہمے ہوئے رہتے ہیں بات بھی نہیں کرتے بچپن سہارے کا مر ہوِن منت ہوتا ہے بچہ ہر وقت سہارے کا متلاشی ہوتا ہے اس لئے بڑوں کو ردِ عمل دیتے ہوئے احتیاط برتنی چاہیے کہ ان کے کہے الفاظ ،دھکا، حقارت کی نظر کسی کے بچپن کا دکھ نہ بن جائے دشمنی یا نفرت اس کے والدین سے ہو سکتی ہے مگر بچے سے نہیں بچوں کو تقسیم کر کے کھانے کی عادت نہیں ہوتی بڑوں کی زمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان کو تقسیم کر کے دیں اور مطمئن بھی کریں ایسے لوگ پتہ نہیں کہاں چلے گئے جو اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ دوسرے بچوں کا بھی خیال رکھتے تھے ہمارے پیارے نبی ؐخاتم الانبیا کا قول مبارک ہیں کہ’’ چھوٹوں پر رحم کرو‘‘ جس کو بچوں پر رحم نہیں آتا اسے اپنی حالت اور عاقبت کی ضرور خبر لینی چاہیے کسی بچے کی محرومی پر اگر دل نہیں پسیجتا تو ضرور اپنے احساس کو ضمیر کی عدالت میں کھڑا کرنا چاہیے ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں