میڈیا رپورٹس کے ملک کے مختلف حصوں میں رواں سال کے ماہ جنوری تا جون کے دوران چوں کے اغوا کے کل 987 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے 120 بچوں کو اغوا کے بعد جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اغواء کی بڑھتی ہوئی وارداتوں میں شروع میں کوئی توجہ نہیں دی گئی جب میڈیا میں اغواء کی بار بار سامنے آئیں تو نہ صرف عدلیہ بلکہ انتظامی ادارے ببھی حرکت میں آگئے اور ان کے سدباب کیلئے حکومتی کی سطح پر کوشیشں شروع کردی گئیں اور حکومت کے اقدامات کی وجہ سے اس میں کافی حدتک کمی بھی واقع ہوئی ہے اغواء کے حوالے سے رپورٹ ہونیوالے بچوں میں ایسے بچے بھی شامل تھے جوکہ اپنی مرضی سے گھروں سے فرار ہوکر ملک کے دوسرے شہروں میں گئے ان میں چند تو ایسے تھے جوکہ والدین کے رویے اور سکولوں اور مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کی بجائے وہاں سے فرار ہوئے انتظامیہ کے حرکت آنے پر ان میں بیشتر کو والدین تک پہنچا دیا گیا لیکن جہاں بچوں کے اغواء کی خبروں نے انتظامیہ اور حکومت کو حرکت میں لایا ہے وہاں پورے ملک بلخصوص ولدین میں ا بھی فراتفری پھیلا کر رکھی ہے اس سے ملک دشمن اور سازشی عناصر کو وطن عزیز پاکستان میں خوف وہراس پھیلانے کا ایک اور موقع مل گیا ہے جس سے مزدوروردیہاڑی دار طبقہ براہ راست متاثر ہو چکا ہے اب یہ افواہیں بڑے شہروں سے نکل کر دور دراز کے دیہاتوں میں بھی پہنچ چکی ہیں جس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا ہے والدین نے اغواء کی بڑھتی ہوئی وارتوں کے خوف سے اپنے بچوں کو سکولوں اور مدرسوں کو روانہ کرنا بند کردیا ہے جس سے سرکاری سکولوں جہاں عام طور غریب لوگوں کے بچوں کی اکثریت ہے ان کے آنے لیجانے کیلئے کوئی بندوبست نہیں ہے بچے اپنے طور پر ہی تعلیمی اداروں میں پہنچتے ہیں یہاں حاضری انتہائی کم ہوکر رہی گئی ہے اس کا دوسرا منفی پہلو یہ بھی سامنے آرہا ہے کہ ایک طرف انتظامیہ نے تعلیمی اداروں کے باہر ریڑھی اور ٹھیلے پر کاروبار کرنے والوں پر پابندی عائد کردی ہے جس سے ملک میں ہزاروں غریب لوگوں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے دوسری جانب گاؤں اور محلے کی سطح پر پھیر ی لگا کر بال بچوں کا پیٹ پالنے والوں کا بھی زریعہ معاش بند ہوکر رہ گیا ہے لوگوں نے ناواقف پھیری والوں کو گلی محلے میں داخلے روک دیا ہے والدین میں سخت خوف وہراس اور ہیجان پایا جاتا ہے بچوں کے اغواء اور قتل کی مختلف وارداتیں لاہور میں ریکارڈ کی گئی ہیں جبکہ راولپنڈی ڈویژن میں کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا مگر افوائیں اور پروپیگنڈے نے اتنا زور پکڑا ہوا ہے کہ لوگ پھیری والے مزدور دیہاڑی دار طبقہ کو پکڑ پکڑ کر اغواء کارکا نام دے کر تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں جو اخلاقی و قانونی کسی بھی طور پر درست نہیں ۔محض افواہوں کی دم پر کسی بھی راہ چلتے کو پکڑ کر اس پر تشدد کرنا اور ان سے سامان چھین لیناصرف اور صرف قانونی جرم ہے اس ضمن میں پولیس کے اعلٰی حکام بھی اپنا موقف دے چکے ہیں کہ شہر کسی بھی ایسے واقعہ کی اطلاع پولیس کو دیں نہ کہ فوری طور پر قانون ہاتھوں میں لیں والدینافواہوں پر یقین نہ کریں اور اپنے بچوں کو باقاعدگی سے سکول بھیجیں۔ تشدد کے ایک واقعہ میں تحصیل راولپنڈی کے کھری گاؤں کا محنت کش محمد اکرم گیلانی شدید متاثر ہوا جس نے پنڈی پوسٹ کو بتایا کہ وہ قرآن پاک کی جلد بندی کا کام کرتا ہے گزشتہ روز وہ قریبی گاؤں کاہنہ چک بیلی میں اس مقصد کے لیے گیا تو میرے ساتھ میری معذور بیٹی بھی تھی جو میری بیوی فوت ہوجانے کے بعد میری پرورش میں ہے جس کو میں ہمیشہ اپنے ساتھ ہی رکھتا ہوں کاہنہ کے امام مسجد نے مجھے گاؤں کے دیگر لوگوں کے ہمراہ پکڑ لیا اور کہا کہ تم اغواء کار افغانی ہو باوجود اس کے میں نے ا پنا شناختی کارڈ اور اپنی بیٹی کا بر تھ سرٹیفیکیٹ دکھایامگر انہوں نے میری ایک نہ سنی اور میری بچی کو برہنہ کر کے لڑکی یا لڑکا ہونے کی تصدیق کرتے رہے اور نہ صرف مجھ پر تشددکیا بلکہ میرے ہی سامنے میری بچی کو برہنہ کرتے رہے اور بعد میں تھانہ روات پولیس کی مداخلت پر مجھے چھوڑ دیا گیا۔مختلف واقعات میں تحصیل کلرسیداں میں شاہ باغ ، کلرسیداں اور چوک پنڈوڑی میں مقامی لوگوں کو اغواء کار سمجھ کر تشدد کا نشانہ بنا دیا گیا ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا بھی ایسی خبروں کو چلانے سے قبل پولیس اور دیگر اداروں سے تصدیق کرلے تاکہ افواہوں سے والدین میں خوف وہراس نہ پھیلے اور والدین بھی صبر اور برداشت سے کام لیں اور افواہوں پر کان نہ دھریں ۔ اور کسی ایسے واقعہ کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دیں اور قانون اپنے ہاتھ میں لینے سے گریز کریں اور غریب ا ور دیہاڑی دار محنت کشوں کو فاقوں پر مجبو رہونے سے بچائیں ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت پنجاب ان معاملات کی مکمل چھان بین کر کے اس کو آہنی ہاتھوں سے نپٹے اور اغواء کار فیکٹریوں کا قلع قمع کر کے فوری امن قائم کرے ورنہ اغواء کی افواہیں پنجاب میں بے روزگاری کے نئے بحران کو جنم دیں گی جسے معاشرے میں جرائم میں اضافہ ہو گا۔{jcomments on}
75