103

بجٹ رمضان المبارک اور مہنگائی /محمد حسین

دنیا بھر کے عوام بجٹ اور مذہبی تہواروں کی آمد کو اپنے لئے خوش قسمتی تصور کرتے ہیں کیونکہ یہ غریب اور متوسط طبقہ کے لئے ریلیف کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ہر ملک بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے لئے خصوصی اہتمام کرتا ہے اور مذہبی تہواروں پر روز مرہ استعمال کی اشیاء میں مناسب کمی کی جاتی ہے لیکن پاکستان ہی شائد ایک ایسا ملک ہے جہاں بجٹ اور مذہبی تہواروں کی آمد سے پہلے ہی مہنگائی کا سیلاب امڈ آتا ہے بجٹ میں امراء اور مراعات یافتہ طبقہ کو ہی نوازا جاتا ہے جبکہ غریب اور متوسط طبقہ مہنگائی کی چکی میں پسنے کے لئے بے یارو مدد گار چھوڑ دیا جاتا ہے یہی صورتحال مذہبی تہواروں کے مواقع پر بھی دیکھنے کو ملتی ہے ماہ رمضان کے پہلے ہفتہ میں بجٹ اور ماہ صیام کی آمد کے ساتھ ہی عوام کو دگنا مہنگائی کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے وفاقی بجٹ کے اعلان کے ساتھ ہی مہنگائی میں دگنا اضافہ ہو گیا حالانکہ وفاقی بجٹ کی منظوری کے بعد یکم جولائی سے عمل درآمد شروع ہوتا ہے صاحب اقتدار و اختیار کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ عوام الناس کن مشکلات و مصائب سے دو چار ہیں اور منافع خور ،ساہو کار اور ذخیرہ اندوز کس طرح لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں بجٹ مہنگائی کا دوسرا نام ہے بے شک عوام کے لئے مراعات کا اہتمام بھی ہو الیکن اشیاء کی نرخوں میں اضافہ ایک رواج بن گیا ہے مذہبی تہواروں پر مہنگائی ایک روائیت بن چکی ہے رمضان المبارک شروع ہوتے ہی اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگ جاتی ہیں اور مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ یقینی ہو جاتا ہے ۔آڑھتی ،تاجر ،دکاندار ناجائز منافع خوری کے زریعے سال بھر سے ذیادہ کما لیتے ہیں رمضان المبارک سے قبل حکمرانوں اور انتظامی افراد کی جانب سے مہنگائی کنٹرول کرنے کے دعوے محض اعلانات تک محدود ہوتے ہیں عوامی مصائب و مشکلات سے غافل صاحب اقتدار و اختیار طبقہ اپنے آرام دہ محلوں،دفاتر سے باہر نکل کرصورت حال کا جائزہ لیں تو انہیں احساس ہو کہ عوام الناس کس طرح مہنگائی کا عذاب جھیل رہے ہیں ۔ماہ مقدس میں مہنگائی کو کنٹرول کرنا اور منافع خوروں کو عوام کو لوٹنے کی کھلی چھوٹ دینا حکمرانوں اور بیورو کریسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے رمضان المبارک کا شمار ان حرمت والے مہینوں میں ہوتا ہے جن میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمتوں اور برکتوں کی برسات کر دیتا ہے اب یہ بندوں پر منحصر ہے کہ وہ اس ماہ مقدس میں نیک اعمال کے ذریعے اپنے رب کو خوش کرتے ہیں یا اس بابرکت مہینے کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے خدا کے غیض و غضب کو دعوت دیتے ہیں رمضان المبارک میں دو طبقات اپنے افعال کے باعث مخلوق خدا کی خصوصی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں ایک جانب ایسے افراد ہیں جو دل میں خوف خدا رکھتے ہوئے دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے خزانے کا منہ کھول دیتے ہیں ایسے افراد غرباء اور مساکین کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ فلاحی تنظیموں کو بھی دل کھول کر زکوٰۃ و صدقات اور عطیات دیتے ہیں ایسے افراد جانتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا واحد ذریعہ مخلوق کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہے دوسری طرف ایسے افراد ہیں جو ماہ رمضان المبارک کا انتظار محض اس لئے کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر لوٹ مار کا گھناؤنا سلسلہ شروع کیا جا سکے ایسے افراد کا خیال ہے کہ وہ سال بھر کی کمائی صرف اسی مہینہ میں حاصل کر سکتے ہیں اس لئے موقع گنوانا بڑی حماقت ہو گی پھل و سبزی فروش چھوٹے دکاندار سے بڑے بڑے ہول سیلر تک اس کوشش میں نظر آتے ہیں کہ عوام سے زیادہ سے زیادہ رقم بٹورنے میں کامیابی حاصل کر لیں اس کام کے لئے ہر وہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ نے تباہی و بربادی کا رستہ قرار دیا ہے ہول سیلرز چیزوں کا ذخیرہ کر کے مصنوعی بحران پیدا کر دیتے ہیں جس کے باعث چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگ جاتی ہیں چیزوں میں ملاوٹ کر کے بھی عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے چھوٹے دکاندار مہنگائی کا بہانہ بنا کر منہ مانگی قیمتیں وصول کرتے ہیں غرض یہ کہ خودغرضی کی کی دلدل میں ڈوبے یہ افراد عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے مشکلات کھڑی کر کے روزے جیسے مذہبی فریضہ کی ادائیگی کو ناممکن بنا دیتے ہیں عوام کے جذبات اور احساسات سے عاری یہ افراد رمضان کریم کی نعمتیں سمیٹنے کی بجائے محض دولت کمانے کا ذریعہ سمجھ بیٹھے ہیں سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت اور سرکاری اہلکار ان بے ضمیر افراد کے خلاف کاروائی کرنے میں یکسر ناکام کیوں ہو جاتے ہیں ذرا سوچئے ایسا کیوں ہوتاہے حکومتی سطح پر عوام کو ریلیف دینے کے حقیقی طریقے اختیار نہیں کئے جاتے بلکہ یہاں سستے رمضان بازار جیسے نمائشی طریقے اپنا کر دنیا کو بے وقوف بنایا جا تا ہے پاکستان کے برعکس دنیا بھر کے ممالک رمضان کریم کے موقع پر مسلمانوں کو بھر پور ریلیف دیتے ہیں اسلامی ممالک میں تو اس کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ جن غیر مسلم ممالک میں مسلمان اقلیت کا درجہ رکھتے ہیں ان ممالک میں بھی رمضان المبارک کے احترام میں مسلمانوں کو اشیائے ضروریہ پر ریلیف دیا جاتا ہے ان کا مقصد مسلمانوں کے لئے آسائش اور سہولت فراہم کرنا ہے تاکہ انہیں روزے جیسے مذہبی فریضہ کی ادائیگی میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے موجودہ وفاقی بجٹ نئے ٹیکسوں کا نفاذ‘ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور1276ارب روپے خسارہ پر مشتمل ہے بجٹ میں خسارے کا مطلب مذید ٹیکسوں کا نفاذ ،مذید نوٹ چھاپ کر یا بینکوں سے مذید قرض لے کر خسارے کو پورا کرنا ہے جس سے مہنگائی کا مذید بڑھنے کا امکان ہے اس بجٹ میں ٹیکسوں کا بوجھ غریب عوام پر ڈالا گیا ہے اور اس بجٹ کو روائیتی بجٹ کہا جا سکتا ہے ہماری بدقسمتی ہے کہ ایک موبائل کارڈ پر غریب آدمی بھی 30روپے ٹیکس ادا کرتا ہے جو کہ نا مناسب اور نا جائز ہے ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں