490

ایک سید زادہ کا پُر ایمان اور سچا واقعہ/علامہ احمد جمال

قرآن مجید نے کہا ہے ۔ یہ نصیحت ہے ۔ نصیحت ماننے والوں کے لیے۔
ہارون رشیدؒ کا ایک بیٹا تھا جس کی عمر تقریباََ (16) سولہ سال تھی۔ بادشاہ ہارون رشیدؒ حضورﷺ کے چچا حضرت عباسؓ کی اولاد میں سے ہیں اِن کا بیٹابہت کثرت سے زاہدوں اور بزرگوں کی مجلس میں رہا کرتا تھا اور اکثرقبرستان چلا جاتا اور وہاں جا کر کہتا کے تم لوگ ہم سے پہلے دنیا میں تھے دنیاکے مالک تھے لیکن اُس دنیا نے تمھیں نجات نہ دی حتیٰ کے تم قبروں میں پہنچ گئے کاش مجھے کسی طرح خبر ہوتی کے تم پر کیا گزر رہی ہے اور تم سے کیا کیا سوالوں و جواب ہوئے ہیں اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتے۔
ترجمہ۔ مجھے جنازے ہر دن ڈراتے ہیں اور مرنے والوں پر رونے ولیوں کی آوازیں مجھے غمگین رکھتی ہیں۔
ایک دن وہ اپنے والد بادشاہ ہارون رشیدؒ کی مجلس میں آیا اُس کے پاس وزراء اُمراء سب جمع تھے اور لڑکے کے بدن پر ایک کپڑا معمولی اور سر پر ایک معمولی چادر بندھی ہوئی تھی اراکین سلطنت کہنے لگے اِس پاگل لڑکے کی حرکتوں نے امیرُالمو’منین کو دوسروے بادشاہوں کی نظر میں ذلیل کر دیا اگر امیرُالمومنین اسکو تنبیہ کریں تو شاہد یہ اپنی حر کتوں سے باز آجائے امیرُالمو’منین نے یہ بات سن کر اُس سے کہا کے بیٹا تو نے مجھے لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کر رکھا ہے اُ س نے یہ سُن کر والد صاحب کو کوئی جواب نہ دیا لیکن ایک پرندہ وہاں بیٹھا تھا اس کو کہا کہ تجھے اُ س زات کا واسطہ جس نے تجھے پیدا کیا تو میرے ہاتھ پر آکر بیٹھ جا ۔ وہ پرندہ وہاں سے اُڑ کر اُ س کے ہاتھ پر آکر بیٹھ گیا پھر کہا کہ اب اپنی جگہ چلا جا وہ ہاتھ پر سے اُڑ کر اپنی جگہ چلا گیااُ س کے بعد اُس نے عرض کیا کے اباَ جان اصل میں آپ جو دُنیا سے محبت کر رہے ہیں اِس نے مجھے رُسوا کر رکھا ہے اب میں نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ آپ سے جدائی اختیار کر لوں اور ایک قرآن شریف صرف اپنے ساتھ لیے چلتے ہوئے ماں نے ایک بہت قیمتی انگھوٹی بھی اسکو دے دی کہ ضرورت کے وقت اسکو فروخت کر کے کام میں لائے وہ یہاں سے چل کر بصرہ پہنچ گیا اور وہاں مزدوروں میں کام کرنے لگا ہفتہ میں صرف ایک دن (شمبہ) کو مزدوری کرتا اور آٹھواں دن تک مزدوری کے پیسے خرچ کرتا اور آٹھویں دن پھر (شمبہ ) کو مزدوری کر لیتا اور ایک درہم اور ایک دانق(درہم کا چھٹا حصہ) مزدوری لیتااس سے کم یا زیادہ نہ لیتا ایک دانق روزانہ خرچ کرتا ابو عامر بصری کہتے ہیں کہ میری ایک دیوار گر گئی تھی اُس کو بنوانے کے لیے کسی معمار (یعنی مستری) کی تلاش میں نکلا کسی نے بتایا ہو گا کہ یہ شخص بھی تعمیر کا کام کرتا ہے۔ ابو عامر بصری کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نہایت خوبصورت لڑکا بیٹھا ہے ایک زنبیل پاس رکھی ہے اور قرآن شریف دیکھ کر پڑھ رہا ہے میں نے اُس سے پوچھا کہ لڑکے مزدوری کرو گئے کہنے لگا کیوں نہیں کریں گے مزدوری کے لئے تو پیدا ہی ہوئے ہیںآپ بتائیں کیا خدمت مجھ سے لینی ہے میں نے کہا گارے مٹی تعمیر کا کام لینا ہے اُس نے کہا کے ایک درہم اور ایک دانق مزدوری ہو گی اور نماز کے اوقات میں کام نہیں کروں گا مجھے نماز کے لیے جانا ہوگا میں نے اسکی دونوں شرطیں منظور کر لیں اور اُس کو لا کر کام پر لگا دیا مغرب کے وقت جب میں نے دیکھا تو اُس نے دس آدمیوں کی بقدر کام کیا میں نے اسکو مزدوری میں دو درہم دیے اُس نے شرط سے زائد لینے سے اِنکار کردیا اور ایک درہم اور ایک دانق لے کر چلا گیا دوسرے دن میں پھر اسکی تلاش میں نکلا پر وہ مجھے کہی نہ ملا لو گوں سے پو چھنے پر پتہ چلا کہ وہ صرف شمبہ(یعنی ہفتہ) کے دن مزدوری کرتا ہے مجھے اسکے کام کو دیکھ کر اتنی رنجت ہوئی کہ میں نے آٹھ دن کے لیے اپنی تعمیر بند کردی اور شنبہ کے دن اُسکی تلاش میں نکلا وہ اُسی طرح بیٹھا قرآن شریف پڑھتا ہوا ملا میں نے سلام کیا اور مزدوری کرنے کے بارے میں پوچھا اُس نے وہی دو شرطیں بیا ن کیں میں نے منظور کرلیں وہ میرے ساتھ آکر کام پر لگ گیا مجھے حیرت ہورہی تھی کہ اِس نے اکیلے پیچھلے شمبہ کو دس آدمیوں کا کام کیسے کر لیا اِس دفعہ میں نے چھپ کے اِسطرح کے وہ مجھے نہ دیکھے اُس کے کام کرنے کا طریقہ دیکھا تو یہ منظر دیکھا کہ وہ گارا لے کر ہاتھ میں دیوار پر ڈالتا ہے اور پتھر اپنے آپ ہی ایک دوسرے کے ساتھ جھڑتے چلے جاتے ہیں مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کوئی اللہ کا ولی ہے اور للہ کے اولیاے کے کاموں کی غیب سے مدد ہوتی ہے جب شام ہوتی تو میں نے اُسے تین درہم دینا چاہے اُس نے لینے سے انکار کر دیا کہ میں اِتنے درہم کیا کروں گا اور ایک درہم اور ایک دانق لے کر چلا گیا میں نے ایک ہفتہ پھر انتظار کیا اور تیسرے شنمبہ کو میں پھر اُسکی تلاش میں نکلا مگر وہ مجھے نہ مِلا میں نے لو گوں سے تحقیق کی تو ایک شخص نے بتایا کے وہ بیمار ہے فلاں ویرانہ جنگل میں پڑا ہے میں جب اُس جنگل میں پہنچا تو دیکھا کہ ہو بے ہوش پڑا ہے آدھی اینٹ کا ٹکڑا سر کے نیچے رکھا ہوا ہے میں نے اُسے ایک دفعہ سلام کیا اور پھر دوسری دفعہ سلام کیا اُس نے آنکھ کھولی اور مجھے پہچان لیا میں نے جلدی سے اُسکا سر اینٹ پر سے اُٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیااُس نے سر ہٹا لیا اور چند شعر پڑھے جن میں سے دو یہ ہیں جن کا ترجمعہ یہ ہے میرے دوست دُنیا کی نعمتوں سے دھوکے میں نہ پڑ۔ عمر ختم ہوتی جارہی ہے اور یہ دُنیا کی نعمتیں ختم ہو جائیں گی جب تو کو ئی جنازہ لے کر قبرستان میں جائے تو یہ سو چتا رہا کر کہ تیرا بھی ایک دن اِسی طرح جنازہ اُٹھایا جائے گااس کے بعد اس نے مجھ سے کہا یعنی ہارون رشید کے بیٹے نے ابو عامر سے کہا کہ جب میر ی روح نکل جائے تو مجھے نہلا کر میرے اِسی کپڑے میں مجھے کفن دے دینا میں نے کہا کہ میرے محبوب اِس میں کیا حرج ہے کہ میں تیرے کفن کے لیے نئے کپڑے لے آؤں اُس نے جواب دیا کہ نئے کپڑوں کے لئے زندہ لوگ زیادہ مستحق ہیں حضرت ابو صدیقؓ نے بھی و صال کے وقت یہی خواہیش کی تھی اور نئے کپڑے جواب میں بھی انہوں یہی کہا تھا کہ نئے کپڑوں کے لئے لوگ زیادہ مستحق ہیں لڑکے نے کہا کفن پرانا ہو یا نیا بال آخر بوسیدہ ہو ہی جائے گا آدمی کے ساتھ تو اُس کا عمل ہی رہتا ہے۔ یہ میری لنگی اور لوٹا صبر کھودنے والے کو مزدوری میں دے دینا اور انگو ٹھی اور قرآن شریف ہارون رشید تک پہنچا دینا اور انہی کے کے ہاتھ میں دینا اور یہ کہہ کر دینا کہ ایک پردیسی لڑکے کی یہ میرے پاس امانت ہے اور وہ آپ سے یہ کہہ گیا ہے کہ کئی ایسا نہ ہو کہ اِسی غفلت کو دھوکہ کی حالت میں آپ کی موت آ جائے یہ کہہ کر اسکی روح نگل گئی اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ یہ لڑکا شہزادہ تھا کفن دفن کے بعد میں قرآن شریف اور انگوٹھی لے کر بغداد پہنچا اور قصرشا ہی قریب پہنچا تو بادشاہ کی سواری نکل رہی تھی اول ایک بہت بڑا لشکر نکلا جس میں ایک ہزار گھوڑا سوار تھے اور اِسی طرح کے 10 لشکر نکلے اور آخری لشکر میں امیرلمومنین خود بھی تھے میں نے زور سے آواز دے کر کہا کہ اے امیر المومنین آپ کو حضور ؐ کی قرابت کا واسطہ زرا میری بات سنیے جب وہ رُکے تو میں نے دوڑ کر وہ امانت اُن کو دے دی بادشاہ نے دیکھتے ہی پہنچا ان لیا تھوڑی دیر گردن جھکائی اور انکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے پھر در بان کو بُلا کر کہا اَس آ دمی کو ساتھ لے جائے جب میں واپس آؤں گا تو میرے پاس بھیج دینا اگر چہ وہ میرا غم تازہ ہی کرے گا واپسی پر دربان نے مجھے بُلا یا اور کہاکہ امیر المومنین پر غم کا اثر ہے اگر تم نے دس باتیں کرنی ہیں تو پانچ پر اکتفاء کرنا پھر امیر لمومنین کے پاس گیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم میرے اس بیٹے کو جانتے ہو میں نے کہا جی ہاں پھر پو چھا کہ یہ کیا کام کرتا تھا میں نے کہا گا رمے مٹی کا کام کرتے تھے اور میں نے بھی ان سے کام کروا یا تھا تو بادشاہ نے کہا کہ تم کو خیال نہ آیا کہ اسکی حضورﷺ سے قرابت ہے میں نے کہا حضور پہلے میں اللہ تعالی سے اور پھر آپ سے معذرت کرتا ہوں مجھے علم نہیں تھا کہنے لگے کہ تم نے اسے اپنے ہاتھ سے غسل دیا میں نے کہا جی ہاں پھر میرے ہاتھوں کو اپنے سینہ پر رکھا اور چند شعر کہے ترجمہ: اے وہ ماسفر جس پر میرا دل پگل رہا ہے اور میری آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں اے وہ شخص جس کا مکان قبر دو رہے اور اسکا غم میرے قریب ہے بیشک موت ہر اچھے سے اچھے علیش کو مکدر کرد یتی ہے وہ مسافر جو چاند کا ٹکڑا تھا جو خالص چاندی کی ٹہنی پر تھا اب سہ چاند کا ٹکڑا اور ٹہنی دونوں قبر میں پہنچ گئی ابو عامر کہتے ہیں کے بادشاہ سلامت اُسکے بعد بیٹے مبر پر میرے ساتھ آئے اور جب میں رات کو سو یا ہو خواب میں اُس لڑکے نے مجھے کہا کہ ابو عامر اللہ تعالیٰ تمھیں جزائے خیر دے کہ تم نے مجھے کفن دیا اور میری وصیت کو پورا کیا۔ اِس واقعہ سے ایک سبق سے یہ ملتا ہے کہ ہم کو کسی قسم کا کوئی بھی حلال کام کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہئیے آج کل یہ بیماری کہ مجھے کرسی اور عہدہ بڑا ملنا چاہئیے اور میں رات و رات امیر ہو جاؤں اِس بیماری نے ہمارے نوجوان نسل کو مجرم بننے پر مجبور کر دیا ہے اور جو جرم نہیں کر رہے تو وہ اچھی نوکری نہ ملنے پر احساس کمتری کا شکار ہو گئے ہیں اور اپنی ناک کو اونچا رکھنے کی کوشش میں کوئی چھوٹی مزدوری یا کم تنخواہ والا کام بھی نہیں کرتے اور بجھائے اس کے کہ ماں باپ کا سہارا بننے بوجھ بن کر رہ گئے ہیں حالانگہ یہ لڑکا جو سب سے اونچے سید خاندان سے تعلق رکنے والا اور بادشا کا بیٹا تھا پھر بھی مزدوری اور کام کو عامر نہیں سمجھا اور تھوڑے نفع پر قناعت اختیار کی اور اِس سے زیادہ کی طلب نہیں کی تو سارے کام اِسی میں پورے ہوتے رہے اس کے برعکس ہم لوگ قناعت کیا کریں اور صبر کیا کریں ہم تو اَن باتوں کو بھول ہی گئے ہیں اور بہت ساری وہ چیزیں جو ہمارے لیے حرام ہیں اسکے جواز کی دلیلیں اپنی طرف سے تلاش کرنے لگے ہیں مثلاایک تاجر کہتا ہے کہ اگر جھوٹ نہ بولیں تو لوگ ہم پر یقین نہیں کرتے کا روبار نہیں چلتاکچھ لوگ کہتے ہیں کہ جی رشوت نہ لیں تو دنیا کہاں رہنے دیتی ہیں حالانکہ ہمارے اندر بہت سارے ایسے لوگ موجود ہیں جو اِن سب حرام کاموں سے بچ کر بھی جی رہے ہیں ایک سبق اِس واقعہ سے ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ کسی کو بھی حقیر نہیں سمجھنا چاہئیے ہو سکتا ہے ۔ جو ہاتھ ہمیں مزدور کے ہاتھ لگتے ہیں نہ جانیں وہ اللہ کو کتنا محبوب ہوں اور مسجد ولایت کو حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ مزدور ہے قرآن کی تلاوت اللہ تعالیٰ کے تعلق کا ذریعہ مزدور ہے اور اپنی ذریعوں میں سے ایک ذریعہ ہر قسم کے کام ہیں اپنے رب کو یاد رکھنا بھی ہے چائے وہ گارھے مٹی کا کام ہی کیوں نہ ہو یہ شرط ضرور رکھیں کہ ہمیں نماز کو جانا ہو گا کیونکہ ہم مسلمان ہیں صرف مولوی صاحب یا داڑھی والا مسلمان نہیں ہوتا بلکہ ہر کلمہ پڑھنے والا انسان مسلمان ہے یہ نیکی میں بھی سارے برابر ہیں اور گناہ بھی سب کو ایک جیسا ملے گا لہذا یہ کہہ دینا کہ ہم دنیا دار چلو جو بھی کریں انِکو ایسا نہیں کرنا چائیے تھا خود کو دنیادار کہہ دینے کا کیا مطلب کہ آپ کے کام فرشتے لکھتے نہیں یا آپ سے حساب کتاب نہیں ہو گا سب سے سب کا موں کے بارے میں پوچھا جائے گا دنیا میں اچھا تلاش کرنے نکلا تو کوئی اچھا نہ ملااور جب اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا تو خود سے بُرا کوئی نہ ملا۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں