خطہ پوٹھوہار کی سر زمین بڑی زرخیز ہے ۔اس کے بطن سے شہدا ،غازیوں،دانشوروں ،کھلاڑیوں ،سیاسی و سماجی شخصیات پیدا ہوئیں جنہوں نے خطہ پوٹھوار کا نام روشن کیا جسکی مثال خال خال ملتی ہے ۔14جنوری 1939کی بات ہے جب بکھڑال گاؤں میں نادر خان کے گھر ایک بچے کی ولادت ہوئی،والدین نے بچے کا نام راجہ محمد اکرم رکھا۔ بچے نے بڑے ہو کر نہ صرف اپنے نام کی لاج رکھی بلکہ اپنے والدین کا نام بھی روشن کر کے دکھایا۔ راجہ محمد اکرم نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے گورنمنٹ سکول بکھڑال سے حاصل کی اور مڈل کرنے کے بعد JV ٹیچر بھرتی ہوئے راجہ محمد اکرم نے ٹیچنگ کے ساتھ اپنی پڑھائی جاری رکھی اور لاہور بورڈ سے میٹرک کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور پھر ایف اے کا امتحان بھی لاہور بورڈ سے اسی روایت کو برقرار رکھتے پاس کیا ۔وقت کی گھڑ ی کے ساتھ راجہ محمد اکرم نے اپنا تعلیمی سفر کو جاری وساری رکھا اور 1969میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا ۔ لیکن ان کی علمی پیاس ختم نہ ہوئی تو آپ نے پشاور یونیورسٹی میں بی ایڈ میں داخلہ لے لیا اور 1972کوپشاور یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی جس پر یونیورسٹی نے آپ کو گولڈ میڈل سے نوازاجو آج بھی آپ کے کمرے کی زینت ہے ۔ راجہ محمد اکرم نے اپنی تعلیمی خدمات کے تقریبا 41 سالہ نوکر ی میں صرف کیے۔ آپ نے 1958 لے کر1972 تک کوئٹہ میں ملازمت کی اس کے بعد آپ کا تبادلہ نارہ (تحصیل کہوٹہ) میں ہوا جہاں آپ نے ایک سال تک نوکری کی پھر آپ کا تبادلہ مر ی میں ہوا جہا ں آپ نے دوسال ملازمت کی پھر کلرسیداں میں تبادلہ ہوا جہاں آپ نے پانچ سال تک خطہ پوٹھوہار کے نونہالوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔ پھر آپ کا تبادلہ گورنمنٹ ہائی سکول بکھڑال میں ہوا جہا ں آپ نے تقریبا 18سال مٹی کا قرض ادا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔راجہ محمد اکرم اپنے 41سالہ تدریسی دورمیں پورے پاکستان میں تعلیم کے شعبہ سے وابستہ رہے اور لوگو ں کو تعلیمی زیور سے آراستہ کرتے رہے۔ راجہ محمد اکرم کو تعلیم کے ساتھ کھیلوں سے بھی بڑا لگاؤ تھا اور وہ غیر نصابی سرگرمیوں کو ذہنی نشوو نما کا زینہ سمجھتے تھے ۔رسہ کشی ان کا پسندیدہ کھیل تھا ،جہاں بھی کھیلوں کے مقابلے ہوتے ان کی شرکت لازم و ملزوم کا درجہ رکھتی تھیں راجہ محمداکرم کی ٹیچنگ کے 41سالہ دور کا باب1999 کو ہیڈ ماسٹرکے عہدہ سے ریٹائر ہوکربند ہوا ۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ راجہ محمد اکرم کو تعلیم سے اتنی محبت تھی کہ آپ اکثر اپنے بچوں سے کہتے تھے کہ میرا دل کرتا ہے کہ میں تعلیم کو خدا حافظ نہ کہوں بلکہ ساری زندگی اسی مقصد کے لیے صرف کر دوں اور اسی جذبہ کے تحت جب وہ ریٹائر ہوئے تو اسی سا ل اپریل 1999 میں انہوں نے چوکپنڈوڑی کے مقام پرایک پرائیویٹ ادارے کمال ماڈل پبلک سکول کی بنیاد رکھی جوکہ تا ہنوزتعلیمی خدمات کی انجام دھی میں مصروف عمل ہے ۔انہوں نے اپنے 16سالہ دور میں بڑے احسن طریقے سے اپنی زمہ داری نبھائی اور علاقہ بھر میں اپنے تعلیمی خدمات کا لوہا منوایا ۔ آج بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کرنل شاہد صدیقی آف موہڑہ نجار،کرنل ڈاکٹر خالد بکھڑال ،کرنل ڈاکٹر عمر ،ڈاکٹر طارق ریاض اورڈاکٹر انصرجیسی نامور شخصیات کی صورت میں زندہ و تابندہ ہے انہوں نے نوجوانوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے سیاسی میدان کو بھی چار چاند لگا دئیے اور شیخ عبدالقدوس ،شیخ حسن ریاض ،راجہ ظفر محمود ،راجہ کامران عابد،شہزاد پیر زادہ اےئر فورس جہنوں نے کلرسیداں کی نمائندگی کی بلکہ دور دیہات میں راجہ افتخار بھولایوسی گف ،عبدالحمید مغل یو سی دکھالی ہمایوں اکرم مواڑہ اور یاسر بشیر راجہ ایڈووکیٹ آف بکھڑال جیسی نامور سیاسی شخصیات پال پوس کر خطہ پوٹھوہار کے سپرد کیں ، جو آج بھی ان کی خدمات کا زندہ ثبوت ہیں انہوں نے جہاں خطہ پوٹھوہار کے نونہالوں کی تربیت کی وہیں اپنے جگر گوشوں کو بھی اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا۔راجہ محمد اکرم کی فیملی اور قریبی دوست گواہ ہیں کہ وہ اپنی 77سالہ زندگی میں ہمشیہ حق اور سچ کا ساتھ دینے والے تھے اور جو بھی بات ہو ہمیشہ منہ پر کرتے تھے اور منافقت سے کو سوں دور بھاگتے تھے اور اسے ہمارے معاشرے کا دیمک قرار دیتے تھے ۔ اگر راقم بنظرغائر ماضی کے دریچوں میں جھانکے تو تقر یبا راجہ محمداکرم کو 11سالوں سے ایک ذمہ دار ، فرض شناس،ایمانداراور خوف خدا رکھنے والی شخصیت کے طور پر جانتا ہے ۔وہ حقیقی معنوں میں سادہ طبعیت ،ملنسازاور سب سے بڑھ کر بہترین مشفق استاد اور زیرک انسان تھے وہ حیران کن حد تک معلومات رکھتے تھے اور ان کی صحبت میں کچھ دیر بیٹھنے والا بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا بعض اوقات وہ اپنے مخاطب سے جغرافیائی اور ملکی معدنیات پر اتنی سیرحاصل بحث کرتے تھے کہ سننے والا دھنگ رہ جاتا تھا اور انہیں نجی محافل میں انسائیکلوپیڈیاگرداناجاتا تھا۔ 11سالوں میں جب بھی ان سے محفل ہوئی تو وہ ایک ہی بات کہتے تھے کہ یہ بچے ہمارے سرمایہ ہیں ان کو دل لگا کر پڑھائیں تاکہ یہ معاشرے کے مفید شہری بن سکیں ۔ راجہ محمد اکرم کی تعلیم سے محبت کا اندازہ اس بات سے خوب لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی بیماری کی صورت میں بھی سکول سے چھٹی کرنا گوراہ نہیں کرتے تھے ۔اور شدید علالت کے باجوداپنی وفات سے تین دن قبل وہ سکول میں حاضر تھے ۔ یہ تو دنیا کا دستور ہے جو اس دارفانی میں آیا ہے اس نے با لآخر اسے چھوڑ کے جانا ہے ۔راجہ محمد اکرم نے بھی اپنی طبعی زندگی کے ایام کو نہ صرف پورا کیا بلکہ اپنے آنے کا مقصد پورا کرتے ہوئے 2جنوری 2016ے جوداعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ان کی وفات سے جہاں علاقہ ایک بہترین استاد سے محروم ہو گیا وہیں معاشرے میں ایک بھرپور علم دوست شخصیت کا خلا بھی پیدا ہو گیا جو شائدمدتوں نہ پر کیا جا سکے ۔ان کی علمی خدمات ہمیشہ تعلیمی افق پر جگمگاتی رہیں گی اور علاقہ اس سے منور ہوتا رہے گا۔رب کریم ان کی بشری لغزشوں کو معاف کرے اور انہیں جوار رحمت میں جگہ دے ۔ آمین{jcomments on}
85