اکلوتا ہونا ایک اعزاز کی بات ہے اکلوتی اولاد پر والدین بھی ناز کرتے ہیں بلاشبہ اکلوتاآنکھوں کا تارا بھی ہوتا ہے کسی شراکت داری کا محتاج نہی
ں ہوتا اس کو بہن یا بھائی کہنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی کیا وہ ہر ایک غم سے آزاد ہوتا ہے کبھی کسی نے اکلوتاہونا اور اس کے دم قدم سے پھوٹتی کونپلیں دیکھی ہوں تو وہ بخوبی اندازہ کر سکتا ہے اکلوتے کو اس وقت تو اور تحسین کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے جب خاندان میں یا محلے میں زمیں، جائیداد، مکانات اور دولت کے بٹوارے پر بہن کو بھائی سے الجھتے دیکھا جاتا ہے اور بھائی اپنے ہی حقیقی بھائی کے مقابل کھڑا ہو کرہر وہ کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے جو اس رشتے کی ہی نفی کر رہا ہوتا ہے اکلوتا نازو نعم میں پلتا ہے ماں اور باپ دونوں کی طرف سے برابر حسن سلوک کا حقدار ٹھہرتا ہے گھر میں اس کی مکمل پسند نا پسند کا خیال رکھا جاتا ہے کھانے پکائے جانے سے لے کر گھر کی سجاوٹ تک اس کے مشورے کو اہمیت دی جاتی ہے اکلوتا ہونے کی وجہ سے اس کی پڑھائی لکھائی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے
سکول کے انتخاب سے لے کر مسجد و مدرسہ کی تعلیم تک اس کے لئے اعلٰی سے اعلٰی بندوبست کیا جاتا ہے اگر کبھی اکلوتی اولاد نانی، پھوپھی یا خالہ کے گھر کچھ وقت کے لئے جائے یا کچھ دن وہاں قیام کرے تو والدین کی اداسی کے ساتھ ساتھ گھر کے درو دیوار بھی ویراں ہو جاتے ہیں گویازندگی کا ہی پہیہ رک گیا ہو اور روز مرہ کے کاموں میں بھی جمود آجاتا ہے جیسے یہ سب ایک ہی محور کی بدولت چل رہے ہوں اکلوتی اولاد بیٹا یا بیٹی اس کے پاس زندگی سے لطف اندوز ہونے اوربھر پور انداز میں گزارنے کے مواقع بہت زیادہ ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ والدین ،خاندان، رشتہ داروں حتیٰ کہ دوستوں کی بھی بہت سی توقعات ہوتی ہیں اور ان کی توقعات پر پورا اترنا بعض اوقات اکلوتے آدمی کے لیے بہت ہی مشکل ہو جا تا ہے اور جوں جوں یہ توقعات بڑھتی ہیں اورپورا نہ ہونے کی صورت میں نصیحتیں سننا پڑتی ہیں اور یہ نصیحتیں آگے چل کر طعنوں کی شکل اختیار کر لیتی ہیں تب جا کر یہ تنگی کا باعث بنتا ہے اور گردش ایام اسے تھکا دیتی ہے تو وہ اکیلے پن کو محسو س کرنا شروع کر دیتا ہے اور بارہامرتبہ اپنے غم کی تقسیم کے لیے بھائی یا بہن کی خواہش اپنی زبان پر لے آتا ہے
اور کاش کے لفظ کے ساتھ اپنی زندگی کی آسودگی کو بھی گرہن لگا دیتا ہے جی ہاں اکیلا ہو نا اور تنہا ہونا باعث تکلیف اس وقت بنتا ہے اور جب کوئی غمگسار نہیں ملتا ، جذبات کی قدر کرنے والوں میں کمی آجاتی ہے اور سب سے بڑھ کر جب سہارے کی ضرورت پڑتی ہے تو اس وقت ان رشتوں کی لمس محسوس ہوتی ہے بیماری سے تنگ آکر تو ایک بھائی سے بھائی تو لڑ سکتا ہے اور دل کی بھڑاس اور غصہ کا طوفان حقیقی بہن یا بھائی کے سوا کون سہہ سکتا ہے پاگل پن کے دورے پڑنے پر یہی رشتے ہی لپیٹ لپیٹ کر رکھتے ہیں اور گھائل ہونے کی صورت میں انہی رشتوں نے مرہم رکھنا ہوتا ہے ہا ں انہی لوگوں نے غم اور مصیبت میں گلے لگ کر آ نسوؤں کی بر سات برسانی ہوتی ہے آپریشن تھیٹر کے باہر یا ائیر پورٹ کے لاؤنج میں ایک پاؤں پر کھڑے ہو کر انتطار کی گھڑیاں کون گنتا ہے یہی حقیقی بہن یا بھائی، غم کا کوہِ گراں گرنے پر یا مصیبت کا شکار ہونے پر اپنے لوگوں کو منانے کی ضرورت نہیں پڑتی
خوشی کے موقع پر رضا کارانہ کام کرنا ہو یا جوبن پر آ کر خوشیاں منانی ہوں تو یہی لوگ سب سے آگے ہوتے ہیں اس گلدستہ کی قدر تو ان سے پوچھیں جو اکلوتے ہیں ساری زندگی اسی کسک میں گزارتے ہیں بانی پاکستان محمد علی جناح بھی اکلوتے بھائی تھے جب صحت گرنے کی وجہ سے انہیں سہارے کی ضرورت پڑی تو محترمہ فاطمہ جناح نے بھر پور طریقے سے آپ کا خیا ل رکھا سفر ہو یا قیام ہر جگہ آپ نے بھائی کی غمگساری کی اور آپ کے لیے اپنے شب و روز کو وقف کئے رکھا ابھی حال ہی میں اس صدی کے نامور شاعر ساغر صدیقی کی برسی گزری آپ بھی اکلوتی اولاد تھے اور تمام عمر اکلوتے ہی رہے جب اس وقت کے صدر مملکت نے گورنر ہاؤس لاہور میں قیام کے دوران آپ کو یا د کیا تو عا لم بے نیازی میں سگریٹ کی ڈبیہ کے کاغذ پر یہ مشہور زمانہ شعر لکھ کر قاصد کے ہاتھ تھما دیا
جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
اور کسی اور موقع پر ایک اور مشہور زمانہ شعر کہہ ڈالا
آؤ اک سجدہ کریں عالم مد ہوشی میں
لوگ کہتے ہیں ساغر کو خدا یاد نہیں
بے شک ایسی بے نیازی کا مظاہرہ اکلوتا آدمی ہی کر سکتا ہے مگر یہاں تک پہنچنے کے لیے اس نے کیسے سفر کیا اس کا احساس اس حالت سے گزرتے والا ہی کر سکتا ہے
دیوار کچی ہو یا پختہ سائے کاکام ضرور دیتی ہے مکان بارش اور موسم کی سختی سے ضرور محفوظ رکھتا ہے چاہے اس کی چھت ٹپک ہی رہی ہو اس لئے غنیمت جانو ان رشتوں کو اور قدر کرو ان چیزوں کی ہم خود غرضی ،بے حسی اور عدم برداشت کی وجہ سے بہت کچھ کھو رہے ہیں ہمیں آگے بڑھ کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینا ہو گی جب رب کائنات نے ایک انسان کو پیدا کیا اور اس کے مقدر میں جو کچھ ہے اسے مل رہا ہے تو ہمیں اس سے لا تعلقی اور بے رخی اختیار کرنے کا جواز کہاں سے مل رہا ہے ۔