80

انسانیت /محمد عمر

آج کل ہر طرف انسانیت کی کمی ہے درندگی کا ہر طرف بول بالاہے کہیں دھماکے ہو رہے ہے اور کہیں معصوم بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہیں پشا ور میں ننھے بچوں کی جانیں لی جا رہی ہیں میں نے سوچا کہ انسانیت یہاں سے کہیں دور چلی ہے کیوں نہ آج اِسے ڈونڈھوں ہو سکتا ہے کہ کہیں نہ کہیں وہ مجھے مل ہی جائے سب سے پہلے اپنے علاقے سے آغاز کیا جامع مسجد کے امام صاحب کے پاس گیا کہ کیا پتہ انسانیت وہاں موجود ہو لیکن امام صاحب کو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ سیاست میں ہیرے کے انتخابی نشان کے ساتھ تہلکہ مچا رہے ہیں وہاں سے واپس ہونا پڑا کیوں کہ وہاں کمیٹی کے ارکان ایک دوسرے کے خلاف غیبت کر رہے ہیں میں نے سوچا امام صاحب کا یہ حال ہے تو باقی کے لوگوں کا کیا حال ہو گا اس کے بعد گاوں کے چیئرمین صاحب کے پاس گیا کہ ہو سکتا ہے انسانیت حکمرانوں کے پاس ہو لیکن وہاں سے بھی مایوس ہونا پڑا کیوں کہ وہاں تو چیئر مین صاحب چند کھوٹے سکے جمع کرنے میں مصروف ہیں اور ان سے اپنا بینک بھر رہے ہیں وہاں سے ہو کر میں نادرا کہ آفس میں گیا کہ شاید وہاں انسانیت پھر سے رجسٹرڈ ہونے کیلئے گئی ہو یا اپنا گرین کارڈ لینے گئی ہو لیکن وہاں رشوت کے علاوہ اور کچھ نظر نہ آیا وہاں سے ہوتا ہوا ہسپتال روانہ ہوا کہ شاید انسانیت زخمی ہو گئی ہو لیکن ہسپتال میں ڈاکٹرز آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں شغل فرماتے ہیں اور مریض بے چارے مر رہے ہوتے ہیں کتنی جانیں ایسی ہیں جو ڈاکٹر کی بے تو جہی کا شکار ہوتی ہیں ننھے معصوم بچے موت کا نشانہ بن جاتے ہیں جو ڈاکٹر کی لاپروائی کا ثبوت ہیں انسانیت ہسپتالوں میں بھی نہیں ملی تو میں نے سوچا سکولوں کا رخ کیا کروں کہ شاید انسانیت سکولوں میں موجود ہو لیکن سکولوں میں زیادہ تر استاد اپنا دل بہلانے کیلئے آتے ہیں نہ کہ بچوں کو پڑھانے کی غرض سے تو ان میں انسانیت کہاں موجود ہوگی سوچنے کی بات کہ ہمارا دین اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ استاد تمہارا باپ ہے اور اگر باپ یہی اپنے بچوں کو غلط راستے پر چلنے کا کہے تو وہ پھر کہلانے کے لائق ہ نہیں اس کی مثال آپ کو بہت ساری جگہوں پر ملے سکولوں میں بھی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی استاد اپنے شاگرد کو یہ بتائے کہ وہ باپ ہے اور شاگردوں کو بچوں کی طرح ٹریٹ کرے تب وہ استاد کہلانے کے لائق ہے اور اگر وہ اپنے شاگردوں کو دوست بنائے ان کے ساتھ ہو وہ حرکتیں تو وہ استاد کہلانے کے لائق نہیں وہاں انسانیت نہیں ان استاد میں اسلام نہیں انسانیت ایک ایسا جزبہ ہے جو انسان کے اندر سے پیدا ہوتا ہے جو دل میں ہوتا ہے جو بڑوں کی عزت اور چھوٹوں کا احترام کرنے سے پیدا ہوتا ہے جو استاد اور شاگرد میں ایک فرق رکھتا ہے جو استاد کو شاگرد کا آئینہ بناتا ہے جو ڈاکٹرز کو مریض کی جان بچانے میں مصروف رہتا ہے جو ڈاکٹر ز کو خوشی فراہم کرتا ہے جب اس کا مریض صحت یاب ہوتا ہے جو ڈاکٹر کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ مریض صحت یاب ہوتا ہے جو ڈاکٹر کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ مریض اگر چائلڈ ہوں تو تمہاری اولاد کی طرح اور اگر اولڈ ہوں تووہ تمہارے ماں باپ کی طرح اور اگر مریض نوجوان ہوں تو وہ تمہارے بہن بھائیوں کی طرح انسانیت انسان کے اندر ایک پھول کی مانند اگتا ہے کہ اگر اس کی دیکھ بھال نہ کی جائے تو وہ مر جھا جاتا ہے انسانیت اس انسان کے اندر ہوتی ہے جو دوسرے کے لیے جیتا ہے اپنے لیے تو ہر کوئی جیتا ہے زندگی تو دوسروں کیلئے جینے کا نام ہے انسانیت زندہ دلوں میں ہوتی ہے اگر آپ کہ اندر انسانیت موجود ہے تو اس کو مر جھانے نہ دیں اس کو سوکھنے نہ دیں بلکہ اس کی اور زیادہ آبیاری کریں تا کہ وہ اور پھولے اور پھلے اس کیلئے آپ اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کریں آپ غربت کو ختم کریں اور تعلیم کو عام کریں آپ بوڑھوں کی مدد کریں آپ بچوں پر رحم کریں آپ اپنے معاشرے میں تو اونچا مقام رکھتے ہیں لوگ آپ کی عزت کرتے ہیں لوگ آپ کو مفتی اور پرہیز گار کہتے ہیں لیکن لوگوں کو یہ نہیں پتا کہ آپ اپنے ماں پاب کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں آپ اپنے بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں اگر آج آپ اپنے ماں باپ کی عزت واحترام کرتیں ہیں تو کل کو آپ کی اولاد بھی آپ کی عزت کرے گی اور اگر آج آپ اپنے والدین کی عزت واحترام نہیں کرتے تو کل کو آپ کی اولاد بھی آپ کی عزت اور اخترام نہیں کریں گی ماں باپ سے انسانیت پورے خاندان میں منتقل ہوتی ہے ماں باپ اچھے ہوں تو اولاد اچھی ماں باپ ہی اچھے نہیں تو اولاد بھی نا فرمان اِسی کو انسانیت کہتے ہیں اور یہی انسانیت ہے دوسروں کی عزت کرو وہ تمہاری عزت کریں گے انسانیت کو پروان چڑھاو انسانیت تمہیں پروان چڑھائے گی تمہیں آسمان کی بلند یوں تک پہنچائے گئی چاہیے آپ انسانیت کے روپ میں ماں باپ کا احترام وخدمت کریں یا اپنے معاشرے کی اصلاح کریں یا غربت کو ختم کریں یا دہشت گردی کو ختم کریں لیکن اپنے حصے کا کردار ضرور ادا کریں تب ہی آپ کامیاب ہوں گے آپ کامیاب ہوں گئے ملک کامیاب ہو گا اور ملک پاکستان ترقی کرے گا کیونکہ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے.{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں