اقبال کی نظم (طلوع اسلام)کا ایک مصرعہ ہے ’’قیامت ہے کہ انسان نوع انسان کا شکاری ہے‘‘ آج کل یہ حقیقت ہے اور ہمارے معاشرے میں عام طور پر دیکھی جا سکتی ہے ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے ۔ مگر آج کا انسان انسانیت کے تقاضوں کو بھلا چکا ہے ۔ ا ب انسانیت کا معیار دولت اور دولت سے حاصل کردہ چیزوں سے ہے۔ زمانے کی معاشرتی اور اخلاقی قدروں میں اس قدر تبدیلی آچکی ہے کہ آج کل کا انسان اپنی دولت کا ذکر کرکے معاشرے میں معزز اور قابل احترام ٹھہرائے جانے کی کوشش کرتا ہے اور جس آدمی کے پاس جتنی دولت اور دولت سے حاصل کردہ چیزیں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں اسی قدر معاشرے میں اسے قابل احترام سمجھا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی بنیاد نیکی اور اچھائی پر رکھی ہے۔ اس دنیا میں اسے بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کے کام آئے ایک دوسرے سے محبت کرے اور ایک دوسرے کے دکھ درد مین شریک ہو لیکن اس دنیا میں آکر انسان اس قدر خود غرض ہو جاتا ہے کہ اپنے ہی بھائیوں کا گلا کاٹنے لگتا ہے اور یوں اس کے اندر سے انسانیت کا جو ہر ختم ہو جاتا ہے اور وہ انسانیت کے دائرہ سے نکل جاتا ہے۔جیسے غالب نے کہا تھا۔بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہوناآدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہوناگویااس دنیا میں بعض لوگوں نے یہاں کی آسائشوں سے اس طرح اپنا دامن بھر رکھا ہے کہ ان آسائشوں سے محروم لوگ حسرت بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھتے ہیں ۔اخوت اور رواداری جو اسلامی تعلیمات کا خاصہ ہے وہ نہین رہی ۔اللہ تعالیٰ کاد وست صرف وہی شخص ہے جو اس کی مخلوق سے محبت کرتا ہے مگر افسوس آج کے دور میں آدمیوں سے تو دنیا بھری پڑی ہے ان میں انسان بہت کم ہیں کیونکہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے آدمی سے انسان بنتے اور پھرانسان بن کر اپنے دل میں دوسروں کیلئے محبت اور بھائی چارے کے جذبات رکھنے کیلئے اس کام میں ذرا محنت کرنی پڑتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات ہر گز گوارا نہیں کہ امیر تو روز بروز امیر ہوتے جائیں اور غریب لوگ روٹی کپڑا او رمکان جیسی بنیادی ضرورتوں کیلئے بھی تمام عمر ترستے رہیں ۔ زکواۃوصدقات کے حوالے سے سہی ان محروم طبقات کو بھی زندگی کی خوشیوں میں برابر کا شریک کرتے رہنا چاہیے کیونکہ تمام عبادات اور دین ایمان کی روح یہی ہے کہ دنیا میں انسان انسانوں کے کام آئیں ۔اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق پورے نہیں کرتا تو وہ کتنا ہی عابد و زاہد کیوں نہ ہو۔اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ نہیں ہوسکتااور نہ انسانیت کے دائرہ میں شمار کیا جاسکتا ہے۔{jcomments on}
78