84

انبیاء کرام ؑ کی عظمت /اریبہ شاہین

انبیائے کرام ؑ کی سیرت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جب اس دنیا میں قدم رکھتے ہیں تو اسی زمانے سے آنے والے وقت اور ملنے والے مذہب کے آثاران کے وجود سے ظاہر ہونے لگتے ہیں ۔وہ حسب ونسب ‘ سیرت و صورت میں سب سے زیادہ ممتاز ہوتے ہیں شرک و کفر کے ماحول میں ہونے کے باوجود وہ اپنے آپ کو اس کی گندگی سے بچائے رکھتے ہیں ۔ ان کی دیانت ‘ امانت ‘ سچائی اور راست گفتاری مسلم ہوتی ہے جب وہ نبوت کا اعلان کرتے ہیں ۔ تو لوگوں کے دل پہلے سے ہی اس کی تصدیق کیلئے تیار ہوتے ہیں یہ بات غلط ہے کہ اللہ کے پیغمبر و رسول عام انسانوں کی طرح ہوتے ہیں ۔ وہ عام انسانوں میں رہ کر سب سے افضل ہوتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم ؑ ‘ حضرت اسماعیل ؑ ‘ حضرت اسحق ؑ ‘ حضرت یوسف ؑ ‘ حضرت موسیٰ ؑ ‘ حضرت داود ؑ ‘ حضرت سلیمان ؑ ‘ حضرت یحییٰ ؑ ‘ حضرت عیسیٰ ؑ ‘ اور حضرت محمدﷺ کے اعلان نبوت سے قبل کے حالات اس بات کے گواہ ہیں کہ پیغمبر انسانوں سے کتنے افضل ہیں ۔نبی علیہ السلام اور رسول ﷺ کا فرض اولین لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی ہے چنانچہ قرآن کریم نے نبی کیلئے ’’ہادی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ’’ وَ لِکُل قُوم ھَاد ‘‘۔ ’’ہر قوم کیلئے ایک راہ دکھانے والا آیا‘‘۔ قرآن کا کہنا ہے کہ جب ہدایت انسانی کیلئے اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مخصوص فرما دیتا ہے اور رسالت و نبوت اسے سرفراز فرما دیتے ہیں تو یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے کہ انسان نے جب سے اس کائنات میں قدم رکھا ہے اس وقت سے رشدو ہدایت کا سلسلہ جاری ہے ۔رسول اور نبی کا کام انسانوں کی اصلاح ہے وہ اس لیے کہ انسان جسے عقل ارادہ ‘ سوچنے اور سمجھنے کی قوت عطا کی گئی ہے ۔ اپنے اعمال میں آزاد اور خود مختار ہے ۔اسی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات کا مقام رکھتا ہے اگر انسان اپنے ارادے اور مرضی سے کام لے تو معاشرے میں فساد اور بگاڑ پیدا ہونا لازمی ہے ۔ارادے کی اصلاح کیلئے دل کی اصلاح ہونا بہت ضروری ہے اوریہی کام انبیاء کرام ؑ انجام دیتے ہیں جہاں بڑے بڑے فلسفیوں اور حکیموں کی عقل حیران اور مجبور رہ جاتی ہے وہاں انبیاء وحی الہیٰ کی رہنمائی میں انسانوں کی روحانی اور قلبی مشکلات کی عقدہ کشائی کرتا ہے انبیاء کرام کی مصلم املاق‘ بادشاہُ حکیم اور مصلح کی طرح صرف بازاروں ‘ مجموں اور آبادیوں کا امن و اطمینان نہیں چاہتے بلکہ وہ لوگوں کے دلوں کے اندر کا اطمینان چاہتے ہیں برے اخلاق کی بیح کنی کرتے ہیں اور انسانوں کے اندر اچھے اخلاق کی تحم ریزی کرتے ہیں ۔غلط رسم و رواج کو دور کر کے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کر کے خدا کا غلام بنا دیتے ہیں اور یہ بات سب جانتے ہیں کہ اللہ پاک اپنے بندے سے پیار کرتا ہے جو انسان اللہ کا ہو جاتا ہے اللہ اس انسان کا ہوجاتا ہے جب کہ ایک انسان اپنے انسان غلام سے کتنی نفرت کرتا ہے اور اپنے غلام کو کتنا ذلیل و خوار کرتا ہے ۔جبکہ اللہ اپنے اس بندے کیلئے رحمت ہی رحمت نازل کرتا ہے جو اس سے امیدیں وابستہ کر لیتا ہے رب تعالیٰ فرماتا ہے !’’ ہم نے رسولوں کو کھلی ہدایت دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اتاری اور عدل کی ترازو تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رہیں‘‘انبیاء کرام بندگان خدا کو باطل کے اندھیرے سے نکال کر حق کی روشنی میں لاتے ہیں انھیں شک کی جگہ یقین ‘ جہالت کی جگہ علم‘ باطل کی جگہ حق عطا کرتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ اللہ کے نبی انسانی معاشرے میں امن قائم کرنے اور اخلاقی اصولوں کے ذریعے انسانی معاشرے کو امن و سلامتی کی را ہ پر چلنے کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ انبیاء کرام جو مقدر لے کر دنیا میں آتے ہیں خواہ کس قدر مشکلات پیش آئیں کتنی ہیں رکاوٹیں ہوں کتنی ہی تکلیفیں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے بالاآخر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں اور ان کو نہ ماننے والے انبیاء کرام کے مخالف اور ان کے دشمن نست و نابود ہوجاتے ہیں پیغمبر وں کی سیرت اور ان کی دعوت کی تاریخ خود اس پر گواہ ہے ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں