دنیا کی زندگی ایک امتحان گاہ ہے لیکن ہم اسے کھیل تماشہ کی جگہ سمجھتے ہیں اور اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو فضول کاموں میں صرف کرتے رہتے ہیں اگرچہ دنیا کی مثال ایک سرائے کی ہے اور یہاں کسی کا بھی ٹھہراؤ ایک مقررہ مدت سے زیادہ نہیں ہے اس مدت کا اندازہ کسی کو نہیں جس کی وجہ سے امتحان کی نوعیت بڑی عجیب ہے کیونکہ عموماََ دنیاوی امتحانات میں ایک وقت مقرر ہوتاہے اور امتحان دینے والے کو اس مقررہ وقت میں اپنے پرچے کو حل کرنا ہوتاہے اور اس نے اس کی تیاری بھی کی ہوتی ہے یوں ہی دنیا کی زندگی امتحان ہے اور ہم یہ پرچہ حل کرتے ہوئے اپنے مقررہ وقت کی طرف جارہے ہوتے ہیں اور بالآخر اس امتحان گاہ سے باہر نکال دیے جاتے ہیں۔
ہم جس دور میں زندہ ہیں یہ نفسا نفسی کے دور کے عروج کے بہت قریب کا زمانہ ہے ابھی بھی ہم لوگوں میں کچھ نہ کچھ احساس باقی ہے گو خون سفید ہونا شروع ہوچکا اور بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہوتاجارہاہے زر ،زن اور زمین کا فتنہ ہر ایک کو اپنے شکنجے میں دبائے ہوئے ہے تاہم کچھ زندہ دل لوگ بھی موجود ہیں جو اپنا سب کچھ دوسروں پر قربان کرنے کے لیے تیار ہیں اور قربان کربھی رہے ہیں ۔
اس دور میں جھوٹ ،منافقت،بددیانتی ،اقرباء پروری،رشوت ستانی اور ظلم جیسے کالے کرتوت ادنیٰ سے لیکر اعلیٰ تک سبھی میں کسی نہ کسی حد تک سرایت کیے ہوئے ہیں اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے تو آپ کو کالے کرتوتوں والے ہی معززو محترم نظر آئیں گے ملت اسلامیہ کی زبوں حالی کی واحد وجہ بھی کالے کرتوت ہی ہیں قول وفعل میں تضاد منافقت کی واضع نشانی ہے عامتہ النا س سے لیکر حکمرانوں تک یہی المیہ ہے ۔
ہم اگرچہ کہلواتے مسلمان ہیں شایدآپ کو اعتراض ہوکہ نہیں ہم مسلمان کہلواتے نہیں بلکہ ہیں ہی مسلمان تو جناب عرض یہ ہے مسلمان ہونے اور کہلوانے میں بڑا فرق ہے سرکار ﷺ کی حدیث ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں کیا ہم میں سے اکثر لوگ دوسروں کی غیبت ،گالم گلوچ اور رسوائی کی باتیں نہیں کرتے کیا ہم دوسروں کا دل نہیں دکھاتے کیا ہم لڑائی جھگڑا اور فتنہ وفساد نہیں پھیلاتے ؟؟؟
اگر ایسا ہے تو پھر ہم مسلمان کہلواتے تو ضرور ہیں لیکن عملاََ مسلمان نہیں ہمیں اپنے ان کالے کرتوتوں کا محاسبہ کرتے ہوئے راہ راست پر آنا ہوگابصورت دیگر دنیا کے اس امتحان کا نتیجہ آ خرت میں مستقل عذاب کی صورت میں بھگتنا ہوگا۔کیا اللہ نے دنیا کی زندگی کو امتحان نہیں بتایا کیا اس نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ پرچے میں کیا تحریر کرنا ہے اورکیا تحریر نہیں کرنا اور اگر کوئی غلط تحریر ہوجائے تو اس کو مٹانے کا صاف کرنے کا طریقہ نہیں بتایا ؟اگر بتایا ہے تو کیا ہم اپنے کالے کرتوتوں سے اپنے پرچے کو کالا ہی رہنے دیں یا کہ آج سے اس پرچے کو صاف کرکے سفیدی میں تبدیل کرنے کی جدوجہد شروع کردیں ؟
آج کفار ہمارے اسلاف کے بنائے ہوئے قوانین کو فالو کرکے ترقی کی مناز ل طے کررہے ہیں یورپ میں قانو ن کی پاسداری کس حد تک کے ہے اکثریت کے علم میں ہے ہمارے ارد گر د کئی لوگ یورپ کی مثالیں دیتے نظر آتے ہیں کیا وہاں کالے کرتوت نہیں ہوتے کیا فسق و
فجور سے وہ معاشرے پاک ہیں نہیں ہر گز نہیں ایسا نہیں ہے وہاں بھی سب کچھ ہورہا ہے فر ق صرف اتنا ہے وہاں جو جیسا جرم کرتاہے وہ کتنا ہی بڑا صاحب منصب کیوں نہ ہو اسے قانون کے دائر ے میں آنا پڑتا ہے جس کی وجہ معاشرے میں جرائم کی شرح کم ہے جب کہ ہمارے ہاں جو جتنا بڑ ا مجر م ہے اتنے ہی بڑے منصب پر براجمان ہے ہمیں پاکستان کے اندر تبدیلی کے لیے میدان عمل میں آنا ہوگا اور دنیا کی اس زندگی کو حق اور سچ کی بلندی کے لیے قربان کرنا ہوگا تبھی دونوں جہاں کی کامیا بی ہمار امقد ر ہوگی اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے امین۔{jcomments on}
87