اللہ سے جنگ ،معاذاللہ کس کی جرات کے خدا کو جنگ کے لیے للکارے۔ وہ جو مطلق العنان، مالک و خالق کون و مکان، قادر و قدیر، ساری عظمتوں اور رفعتوں کا مالک، جس کے امر کن کے تحت کاینات وجود میں آجاے اسے کون جنگ کا چیلنج دے سکتا ہے۔ روے ارضی پر بسنے والا کولی بھی انسان کسی بھی مذہب سے وابستہ ہو مگر اس کی فطرت میں خوف خداوندی کی موج کہیں نہ کہیں اٹھتی ہے، جب مصیبت چھا جاےتو وہ اپنے معبودان باطلہ کو بھول کا معبود برحق کو ہی پکارتاہے۔چنانچہ کوئی انسان ہرگز خدا کو جنگ کا چیلنج نہیں دے سکتا۔ گزشتہ دنوں اعلیٰ عدلیہ میں سود کے موضوع پر بحث ہوئی اور جج صاحب نے بیان جاری کیا کہ جو لوگ سو د نہیں لینا چاہتے وہ نہ لیں ، جو لے رہے ہیں انہیں اللہ پوچھے گا۔سپریم کورٹ کے معزز جج صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ صرف سود کھانے والے کو ہی نہیں بلکہ منصف اعلیٰ عدلیہ کے ہاتھ اختیار ہونے کے باوجود سود کو ختم نہ کرنے پر انہیں اللہ سب سے پہلے پوچھے گا۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب اعلیٰ عدلیہ کی طرف علی الاعلان اللہ کو جنگ کے لیے للکارا جا رہا ہے۔ اس بات میں بھی شبہ نہیں کہ انیسویں صدی کے اینگلو سیکون لا کی بنیاد پر فیصلے کرنے والی عدالت سے کسی شرعی فیصلے کی توقع کرنا عبس ہے۔ قارئین کرام ذرا تصو ر تو کیجیے کہ آپ کس خدا کو للکا ر رہے ہیں کیا آپ کے اندر ہمت ،طاقت ،سکت اور صلاحیت ہے کہ خدا کا مقابلہ بھی کریں اور جیت بھی جائیں ؟ ہرگز نہیں ۔ مٹی اور گارے سے بنا انسان کیا اوقات رکھتا ہے کہ وہ خدا سے جنگ کر سکے۔مگر یہ اقتدار اور دولت کا نشہ ہے جو انسانی عقل کو سلب کر لیتاہے۔ یہاں کی عدالتوں میں انصاف بکتا ہے ، سر عام بکتا ہے۔قرآن کریم میں اللہ کریم نے ارشاد فرمایا: اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ اللہ کریم کے اس فرمان کی سچالی کو ہم روزانہ سنتے ہیں مگر نظر انداز کر دیتے ہیں کیا آپ انٹرنیشنل سٹاک پر بحث میں روزانہ یہ جملہ الیکٹرانک میڈیا پر سماعت نہیں کرتے ؟Million dollars disapeared from the market. یوں ہی اللہ سودی معاش کو غایب کر دیتاہے اور خبر بھی نہیں ہوتی۔سرکار دوجہاں ﷺ کی آمد سے قبل اہل عرب سودی معاش میں کاروبار اور تجارت کرتے تھے مگر اللہ کریم نے قرآن کے ذریعے سود کو حرام ٹھہرایا، چنانچہ ارشاد ہوا:اے ایمان والواللہ سے ڈرو اگر تم واقعی مومن ہوتو سود کاو ہ حصہ جو باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دواگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف سے اعلان جنگ سن لو (البقرہ)۔اس آیہ کریمہ کے نزول کے بعد اہل ایمان نے سود سے کنارہ کشی اختیار کی۔ یہ اعلان جنگ دنیا کا کول60ی ملک یا سپر پاور نہیں کر رہی بلکہ قادر مطلق ذات بابرکت کی طرف سے ہے۔کیا ہم اس جنگ کے متحمل ہوسکتے ہیں نہیں ہرگز نہیں مگر پھر بھی سود کو جایز تصور کیے ہوے ہیں۔ سود کی حرمت پر سرکار کل جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سود کھانے والے کا ادنیٰ ترین گناہ کا درجہ ایسے ہے جیسے کولی شخص چھتیس مرتبہ اپنی ماں سے زنا کرے۔نام بدلنے سے کسی شے کی حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔ شراب کی بوتل پر اگر جوس کا لیبل لگا دیں تو اندر شراب ہی رہے گا۔ پرافٹ یا انڑسٹ کہہ دینے سے سود کی حقیقت ہرگز تبدیل نہیں ہوتی۔اسلامی جمہوریہ میں نافذ آین پاکستان کی شق نمبر 38(ایف) میں درج ہے کہ حکومت جس قدر جلد ممکن ہوسکے ربا(سود) کو ختم کرے گی۔مگر افسوس کے گزشتہ سالوں میں ابھی تک زمام اختیار کے متحملین اور انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے عدل فروشوں کو کبھی آئین کی یہ شق نظر نہ آئی۔کچھ مخلص اور اسلام پسند افراد کی طرف سے اس امر کی طرف کاوشیں کی گییں مگر ہر بار کو ئی نہ کولی حیلہ بہانہ سودی معیشت کے اجرا کا ذریعہ بنا رہا۔عصر حاضر میں دنیا میں جہاں بھی غربت، افلاس ، معاشی بدحالی اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہے وہاں سودی معیشت کے سوا کوئی دوسری وجہ نہیں۔آج جو قوتیں سپر پاور بنی پھرتی ہیں انہوں نے سودی معاش کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک کے وسائل ،نظام حکومت اور معیشت پر قبضہ حاصل کیا، دنیا بھر کے بینک سٹیٹ بینکس کے اور تمام سٹیٹ بنکس ورلڈ بنک کے مقروض ہوے اور ورلڈ بنک امیرکن فیڈرل ریزرو بنک کا مقروض ہو ا یوں سودی معیشت کے ذریعے صرف چند افراد تمام دنیا کے جمہوری ممالک کی معیشت اور اقتدار پر قابض ہیںیہی وہ نظام ہے جو امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر کر دیتا ہے یہ فقیروں کے ہاتھ سے نوالہ بھی چھین لیتاہے۔آج دنیا میں جہاں عزتیں نیلام ہورہی ہے، بے گناہ کا خون ہو رہا ہے، نوجوان ڈاکو اور لٹیرے بن رہے ہیں، ذلیل اور کمینے لوگ صاحب اقتدار ہورہے ہیں وہاں جمہوریت ہے وہاں سودی معیشت ہے۔ جمہوری نظام حکومت کا مقصد ہی سودی معیشت کا تحفظ ہے اور پاکستان جیسے اسلامی ملک میں اس کے بچاوکے لیے جمہوریت کے ساتھ عدالتی نظام اینگلو سیکسون لا کی بنیاد پر قایم ہے جس میں تاحال اسلامی نظام شریعت با اثر نہیں ہوسکا۔اسلامی نظریاتی کونسل بھی اس معاملے میں بے بس نظر آتی ہے۔مجھے گلہ وارثان ممبر و محراب سے بھی ہے۔ جہاں مسلکی اختلاف ہو یا کسی شخصیت کا معاملہ ہو وہاں علما، مدارس کے اساتذہ طلبا اور دیگر مذہبی افراد سڑکیں بلاک کرتے حکومت کو ڈراتے دھمکاتے نظر آتے ہیں مگر جب حکومت وقت نے خدا اور اس کے رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ کردیا تو آج کولی مظاہرہ کیوں نہیں؟ آج حکومت کو اللہ کے غضب کی وعیدیں کیوں سنائی نہیں جارہیںیا شاید ہمارے مدارس جدید معاشی نظام کو سمجھنے اور اس پر فتویٰ دینے سے قاصر ہیں۔ مسلمانان پاکستان کے لیے اب آنیوالے عذاب الٰہی سے بچنے کی واحد تدبیر یہی ہے کہ وہ پرافٹ، انٹرسٹ اور ربا جیسے متبادل نام کے کھاتوں سے اجتناب کریں ۔ اگر بامر مجبوری بنک میں اکاونٹ رکھنا ہے تو صرف کرنٹ اکاونٹ رکھیں ۔ اسلامی معاشی نظام کے خدوخال کا مطالعہ کریں اور اس کے مطابق رزق حلال کمانے میں سرگرم ہوجائیں۔{jcomments on}
86