جب سے 9/11کا واقعہ سے بھی کئی عشرے پہلے پاکستان افغانیوں کے لیے کھلی گذر گاہ تھی۔ کوئٹہ،قبائلی علاقے اور حتی کہ اسلام آباد بھی کئی ایک نامور قبائلی کمانڈروں کا مرکز رہا۔روس نے جب افغانستان پر چڑھائی کی تو پاکستان میں عوامی حکومت کا تختہ الٹنے والے آمر جنرل(ر) کو قدرت نے موقع دے دیا کہ وہ امریکہ کے ساتھ یاری گہری کرے۔امریکہ کو پاکستان کی ضرورت تھی، اس معنی میں کہ پاکستان بالخصوص ایک خاص مکتبہ ہائے فکر کے مدارس کا چین قائم کرے۔اور پھر ان مدارس کو جہاد کے نام پر بیس کیمپ کے طور پر استعال کیا جائے۔ جنرل(ر) ضیا الحق کو یہ سب نہ صرف پسند آیا بلکہ انھوں نے اس حوالے سے باقاعدہ ایک مہم چلائی۔جماعت اسلامی اس مہم کا فرنٹ لائن حصہ تھی انسان غلطی کو تسلیم کر لے تو اس کے لیے بڑے سیکھنے کو اچھے مواقع میسر آتے ہیں مگر غلطی کو ضد بنا لیا جائے اور اس کی توضیحات پیش کی جانے لگیں تو یہ تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم نے غلطی کو تسلیم کرنے کے بجائے اس غلطی کی توضیحات میں کتب لکھنی شروع کر دیں۔لاریب کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے مگر تسلیم کیا جانا بھی ضروری ہے کہ وہ ہمارا پڑوسی ہے۔ ہمسائے تبدیل نہیں کیے جا سکتے بلکہ یا تو ان کے ساتھ تعلقات کو حتی المقدور ایک خاص پر رکھا جاتا ہے اور اگر ہمسایہ جارح ہو تو پھر طاقت کا کم از کم توازن برقرار رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔بے شک ہمارا ہمسایہ جارح بھی ہے اور شاطر بھی۔ہمارے پاس روایتی و غیر روایتی جنگی طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ بھارت بے شک کراس بارڈر دہشت گردی کا پروپگنڈا کرتا رہے مگر شواہد اس کے بر عکس ہیں۔بھارت و پاکستان کی ہی نہیں بلکہ دنیا اور خطے کی بھی یہ کم نصیبی ہے کہ بھارت کا وزیر اعظم ایک ایسا شخص ہے جو دنیا کا تسلیم شدہ انتہا پسند اور دہشت گرد ہے۔ایسے آدمی سے خیر کی توقع کیا ہے؟یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ اگر بھارتی و افغان خفیہ ایجنسیاں مل کر پاکستان کے اندر دہشت گردی کروا رہی ہیں تو ہماری ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں؟ سوال اگرچہ تلخ ہے مگر جواب کسی حد تک موجود ہے۔ ہماری فورسز کا سار دھیان مشرقی سرحد پر رہا جبکہ شاطر بھارت نے افغانستان کے ساتھ مل کر پاک افغان سرحد کے قریب فرقہ وارانہ دہشت گردی کے لیے ٹریننگ کیمپ بنائے سپاہ صحابہ و لشکر جھنگوی سمیت کم و بیش 61شیعہ سنی تنظیمیوں پر پابندی لگی مگر دہشت گردی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ ہم نے سوات میں ملا صوفی محمد اور مولوی فضل اللہ کے خاف آپریشن کیا،فوج اپنا کام کر چکی تو سویلین حکومت اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں لیت و لعل سے کام لیتی رہی۔ فوج نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا تو کالعدم تنظموں اور دہشت گردوں کے سیاسی ونگز نے مہینوں پہلے ان تاریخوں کا اعلان کرنا شروع کر دیا جن تاریخوں میں فوج نے شمالی وزیرستان میں آاپریشن کرنا تھاسانحہ پشاور ہونے سے مہینوں پہلے نون لیگ کی حکومت نے چیخ چیخ کر کہتی رہی کہ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ سیاسی حکومت مذاکرات کرے گی۔میں نے اپنے کئی ایک کالموں میں یہ سوال اٹھایاتھا کہ قریب و دور کی تاریخ میں ایسا کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی ریاست نے ریاست اور ریاست کے آئین کے باغیوں کو مذاکرات کے ذریعے ریاستی قوانین کا تابع کیا ہوا ہم سب مگر جانتے ہیں کہ نون لیگ کہ کئی ایک با اثر سیاست دان اور افغان و روس جنگ کے دوران ریاستی طاقت سے طاقتور ہونے والے مولوی مگر مذاکرات پر زور دیتے رہے۔ طالبان نے اپنی طرف سے تو باقاعدہ مولویوں کا ایک پینل بھی مذاکرات کے لیے تشکیل دے دیا تھا، یا للعجب،وہی لوگ ریاست کا مؤقف طالبان کے سامنے پیش کرنے کو پیش پیش تھے جو طالبان کے مؤقف کے نہ صرف زبردست حمایتی تھے بلکہ طالبان کے استاد بھی کہلاتے تھے۔سوال مگر یہ ہے کہ یہ لوگ اگر طالبان کے نمائندے تھے تو ریاستی نمائندگی کون کر رہا تھا؟ افغان سمجھتے ہیں کہ ان کی تباہی کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ افغان و پاکستان طالبان اور ان کے سہولت کاراس بات پر زیادہ رنجیدہ ہیں کہ ایبٹ آباد میں چپھے مرد مجاہد جس نے ساری دنیا کے مسلمانوں پر آفتوں کو دعوت دی،اسے پاکستان نے امریکی شراکت داری سے بے خبری میں مار دیا۔حالانکہ یہ امریکہ آپریشن اس قدرتیز رفتار اور خفیہ تھا کہ پاکستانی اعلی حکام اور اداروں کو بھی واشنگٹن سے اطلاع ملی۔پاکستانی حکومت جب طالبان کے نمائندوں کے ذریعے طالبان ہی سے مذاکرات کر رہے تھے تو اسلام آباد کچہری میں دہشت گردی کے واقعے سمیت دہشت گردی کے کئی ایک ہولناک واقعات ہوئے حکومت مگر مثالیں دیتی رہی کہ ہر جنگ کا ایک حلک ہوتا ہے جسے مذاکرات کہا جاتا ہے۔ مذاکرات مذاکارت کے کھیل میں دہشت گردوں نے پاک فوج کو جوانوں کو بے دردی سے شہید کیا،ان کے سر تن سے جدا کیے اور اس انتہائی افسوسناک واقعہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کر دی۔جس سے محب وطن پاکستانیوں میں غصہ کی لہر دوڑ گئی اور حکومت پر یہ دباؤ بھی بڑھا کہ حکومت فی الفور آپریشن کرے۔ حکومت اپنی ووٹوں کی فکر میں تھی کہ سانحہ پشاور ہوگیاواقعہ کے فورا بعد قوم کے مسیحا جنرل راحیل شریف اڑان بھر کر افغانستان پہنچے اور افغان صدر کو بتایا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی نہ صرف افغانستان میں ہوئی بلکہ ہمارے مجرم بھی افغانستان میں پناہ گزین ہیں، انھیں فورا ہمارے حوالے کیا جائے۔ اگان اسدر نے وہی سفارتی جوابات فرمائے کہ ہم اپنے سرزمین کسی بھی ملک اور بالخصوص برادر پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔یہ پاکستانی فوج کا دباؤ ہی تھا کہ افغان فورسز نے اپنے صوبہ کنٹڑ میں فضائی بمباری کی۔ ہم مگر ماضی کو اتنا یاد کیوں کریں؟ پشاور ایئر بیس پر ہونے والے تازہ حملے کے بارے میں فاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کھڑے ہو کر افغانستان میں آپریشن ہوسکتا ہے، مگر اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید خراب ہونگے۔ انہوں نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ بڈھ بیر حملے میں ملوث دہشت گرد جہاں ٹھہرے، اس کا بھی پتہ چل گیا ہے، حملے کے ماسٹر مائنڈ کا تعلق افغانستان سے ہے وفاقی وزیر داخلہ نے درست فرمایا کہ پاکستان میں کھڑے ہو کر افغانستان میں آپریشن ہو سکتا ہے۔افغانستان یا بھارت میں پٹاخہ بھی پھٹ جائے تو بلا جھجک دونوں ممالک الزام پاکستان پر لگا دیتے ہیں مگر افغانستان یہ بھول جاتا ہے کہ لاکھوں پاکستانیوں کو پاکستان نے اپنی ہی شہریوں کی طرح کی سہولیات دے رکھی ہے؟ ان کی آمد سے نہ صرف افغان قبائلی روایات والا اسلام بھی درآمد ہوا بلکہ کلاشنکوف،چرس اورہیروئن بھی پاکستانی سماج کا لازمی حصہ بنا دیا گیا صرف چند سال کے شواہد اکٹھے کر لیں۔قتل و رہزنی،ڈکیتی،کار چوری ،آبروریزی اور اغوا برائے تاوان کی جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں ان میں سے 90فی صد سے زائد افغانی پٹھان شامل ہیں۔{jcomments on}
80