محرم الحرام کے مہینے میں ہر طرف سے یہی پکار سنائی دے رہی ہوتی ہے ۔ سلام یا حسین کیونکہ نواسہ رسول ﷺ نے کربلا میں تمام تر اقتدار اور حکومت کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے بے مثال جرات اور بہادری سے اپنی اور اپنے خاندان کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ غیر مسلم بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ امام حسین ؑ نے کربلا کے میدان میں اپنی جان کی قربانی دے کر حقیقت میں اسلام کو بچایا ۔ آج پوری دنیا میں اسلام کے پیروکار امام حسین ؑ کی اس قربانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ آج ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ امام حسین ؑ نے کس مقصد کیلئے اتنی بری قربانیاں دی؟ وہ مقصد تھا دین اسلام کی سر بلندی اور آپؓ نے یہ ثابت کر کے دکھایا کہ حق اور باطل کے معرکے میں فتح حق کی ہی ہوتی ہے اور حق کی فتح کیلئے اگر اپنی جان بھی دینی پڑ جائے تو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔سچ تو یہ ہے کہ جس نواسے کو سرکار دو عالم ﷺ نے اس دنیا میں ہی جنت کے نوجوانوں کے سردار ہونے کی بشارت دے دی تھی وہ اگر چاہتے تو جنگ کے بغیر ہی سب کچھ حاصل کر سکتے تھے آپ کے ننھے ننھے لال جب پیاس کی شدت سے تڑپ رہے تھے تو امام حسین ؑ اگر ایک دعا فرماتے تو دریائے فرات کا پانی چل کرآپ کے قدموں میں آجاتا ۔ آپ ؑ اگر ایک دعا تو کیا ہاتھ اٹھانے کی دیر تھی دشمن کا سارا لشکر تباہ و برباد ہو جاتا ۔ مگر امام حسین ؑ نے انتہائی جرات و بہادری کے ساتھ ان تمام مصائب و مشکلات کا مقابلہ کیا ۔ اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی قربانی دے کر یہ ثابت کیا کہ جہاں حق و صداقت کی بات آجائے وہاں اگر اپنی جان بھی چلی جائے تو کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔
بقول اقبال
آئین جوانمرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُ باعی
آج مسلمانان عالم کو اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھنا ہو گا کہ امام حسین ؑ نے تو حق و سچ کی خاطر اپنی جان قربا ن کر دی کہ آنے والے وقت میں کسی کے حقوق پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے مظلوموں کی داد رسی کی جائے اور ظالموں کے سامنے ڈٹ جانا ہی اصل اسلام ہے ہم امام حسین ؑ کی اس قربانی کو خراج تحسین تو پیش کرتے ہیں ۔ مگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو پتا چلتا ہے واقعی امام عالی مقام نے جس مقصد کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ۔ کیا وہ مقصد پورا ہو رہا ہے حقیقت اس کے بالکل الٹ نظر آئے گی ۔ کیونکہ آج جس طرف نظر دوڑائی جائے یزید کے پیروکاروں کی طرح لوٹ مار کا بازار گرم ہے مظلوموں کی مدد کرنے والے نظر نہیں آتے انسانیت کا معیار گر چکا ہے ۔ عوام کے حقوق پامال ہو رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ کچھ لوگوں نے انسانیت کو صرف ایک طبقے تک محدود کر دیا ہے غریب کی آواز سننے والا کوئی نہیں ۔ اس معاشرے میں ظالموں کی قدر بڑھ گئی ہے عوام کی جان و مال عزت و آبرو کا تحفظ ناممکن ہوتا جا رہا ہے جس کے پاس طاقت ہے وہی سیاہ و سفید کا مالک ہے ۔ کرپشن اور چور بازاری میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے ہر حربہ استعما ل کیا جا رہا ہے آج کل انسانیت کا معیار صرف دولت اور دولت سے حاصل شدہ مادی چیزوں سے ہے ۔ انسان کے کردار اور ا خلاق سے زیادہ دولت کی اہمیت بڑھ چکی ہے جن کے پاس اختیار ات ہیں وہ عوام کو ان کے بنیادی حقوق دینے سے قاصر ہیں ۔ اقتدار کے نشے میں دھت اپنی دھن میں مگن ہیں پورے عالم اسلام پر اس وقت نیند کا غلبہ ہے مسلمانوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے لیے غیر مسلم قوتیں برسر پیکار ہیں اسلامی ممالک کے سربراہان خواب خرگوش کے مزے لے رہے ایک مسلمان کی گردن کٹتی ہے تو دوسرے تماشا دیکھتے ہیں اسلامی اخوت و بھائی چارے کی فضا ختم ہوچکی ہے افسوس کہ امام حسین ؑ کی قربانی کو ماننے والے اگر اس بات پر غور کریں تو انہیں حسینیت او ر یزیدیت کا فرق نظر آجائے گا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ باطل کو مٹنا ہی ہے اور فتح صرف حق ہی کی ہوتی ہے ۔ امام حسین ؑ نے کس مقصد کیلئے سجدے میں اپنے سر کو کٹایا اس مقصد کو سمجھنے کی ضرور ت ہے اگر اس کو سمجھ لیا جائے تو پھر ہر طرف یہی پکا ر ہوگی ۔
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد{jcomments on}
84