جڑواں شہر راولپنڈی/اسلام آباد کے عوام تختہ مشق بنے ہوئے ہیں راستے بند ٹی جنکشن روات سے لیکر کھنہ پل اور کاک پل سے فیض آباد، اور فیض آباد سے زیرو پوائینٹ تک ہر روز کسی نہ کسی وجہ سے روڈ بند ہوتا ہے ایف سی کی بھاری نفری کی اسلام آباد آمد اور بھاری بھرکم ہیوی ٹریفک 2 نومبر کے کپتان کے دھرنے کو ناکام بنانے کے لیئے پوری تیاریاں اس دفعہ حکومتی اضطرابی کیفیت اور بوکھلاہٹ کوبری طرح سے اندر کی بات کو سب پر عیاں کررہی ہے،لگتا ہے حکومت اور اپوزیشن فائینل راؤنڈ کے لیئے مکمل طور پر “وارم اپ” ہوکر پوری تیاریوں میں ہیں،جس کا مظاہرہ انہوں نے گزشتہ روز راولپنڈی میں شیخ رشید کی لال حویلی اور اس تک جانے والے تمام راستے “سیل” کرکے کنٹینر کھڑے کردئیے،یہ ساری علامتیں اس بات کا چیخ چیخ کر برملا اظہار کر رہی ہیں کہ حکومت وقت بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے،ریاستی میشنری اسلحے آنسو گیس کے بے دریغ استعمال سے تو انتشار ہی پھیلتا ہے،نفرتیں ہی جنم لیتی ہیں سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ قید و بند اور تھانے و جیلیں بھرنے گرفتاریوں سے کارکنوں کو دبایا تو نہیں جاسکتا بلکہ کارکن مزید چارج ہوتا ہے،اس عمل سے کارکن کی سیاسی تربیت میں اضافہ ہوتا ہے اس سے کارکن سے لیڈر بنتا ہے،گزشتہ روز کمیٹی چوک میں شیخ رشید کو “رسیداں کڈو رسیداں اور تلاشی دوتلاشی “کے مطالبے پر مبنی آواز کو بند کرنے کی کوشش میں پنجاب پولیس کے “شیرجوانوں” نے “صاحبوں” کو خوش کرنے کے لیئے آنسو گیس کے شیل اندھا دھند راؤنڈ فائیر کیئے،جس سے میڈیا کوریج پر مامور جرنلسٹوں سمیت سیاسی کارکنوں کی آنکھوں نے تو خوب آنسو بہائے،مگرقریبی گھروں میں محصور خواتین بچوں بوڑھے بزرگوں کا کیا قصور تھا، انہیں کیوںْ رلایا گیا، “کنٹینر گورنمنٹ” کے حکومت پر راستے بند ایک ماں اپنے صرف تین دن کیشیر خوار محصوم بچے کو مری روڈ بینظیر بھٹو ہسپتال دوائی کے لیئیاٹھائے پیدل لیجا رہی تھی اسے کیوںْ رلا دیا گیا کیوں اس ماں کی گودْ اجاڑ دی گئی،کیوں اس کے بچے کو وقت سے پہلے مار دیا گیا کیوں اس بچے کو قتل کیا گیا ڈاکٹر کہتے ہیں کہ بچے کی موت پھپڑوں میں آنسو گیس کا مواد زیادہ چلا گیا جو پوائیزن بن کر اس کی جان لے گیا کیوں اور یہ سب کچھ کب تک ہوتا رہے گا؟ سیاسی لوگوں سے اختلافات کو طے اور حل کرنے کے اور بھی کافی حل ہیں کئیں راستے ہیں مگروہیں پر اس بات کا بھی اظہار ضروری ہے کہ کل جب حکمران اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو برسراقتدار حکومتی گروپ کے خلاف احتجاج کو اپنا جائز بنیادی سیاسی حق سمجھتے ا گر جب خود اقدتدار میں آکر کرسی پر براجمان ہوتے ہیں تو خود ایسے ہی مظالم کرنے لگتے ہیں ایسے ہی قوانین پر عمل درآمد کرنا اور کروانا شروع ہوجاتے ہیں کہ بس توبہ توبہ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست میں شرافت برداشت اور احترام کی پالیسی کو فروغ دیا جائے اور اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھتے ہوئے فوقیت دی جائے کہ آج اقتدار تو کل اپوزیشن کے بینچوں پر بیٹھنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا، دریں اثناء وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے حلقہ تحصیل کلرسیداں کی پولیس کی پھرتیاں اور بے خبری پی ٹی آئی کے حامی کونسلر گلفراز بٹ کے مسلم لیگی رشتہ داروں کی گرفتاریوں پکڑ دھکڑ شروع پی ٹی آئی تحصیل کلرسیداں سے ٹریڈرز ونگ کے صدرقمر ایاز کے غیر سیاسی کاروباری بھائی کو “نغ” پورا کرنے کی پالیسی کے تحت گرفتار کرلیا گیا اب ناکردہ جرم کی پاداش میں پکڑے جانے والے مسلم لیگی کیا آئیندہ مسلم لیگ کو ووٹ دیں گے یا پی ٹی آئی کو، جواب وقت دے گا مگر خبریں “بغاوت ” کی ابھی سے آنا شروع ہوگئی ہیں، اسلام آباد میں سردی کا موسم شروع ہوچکا ہے مگر2 نومبر کے دھرنے سے سیاسی ٹمریچر کافی بڑھ چکا ہے جس میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے، آئیندہ آنے والے حالات اور ان سےْ جڑی خبروں کو گلی محلوں گھروں اور دکانوں اور سفر کے دوران گاڑیوں میں دلچسپی سے “ڈسکس” کیا جارہا ہے حتیٰ کہ سکولوں اور گھروں میں بچے خواتین مرد اور خواتین ٹیچرز بھی آمدہ ملکی سیاسی صورتحال پر ملی جلی گفتگو میں بھرپور حصہ لیتے نظر آرہے ہیں آئیندہ چند دن اسلام آباد حکومت کے لیئے نہائیت پریشان کن اور اہم ہیں حامی مخالف سبھی لوگ فوج کے سربراہ کے ہر بیان پر خاصی دلچسپی لیتے ہیں اور 111 برگیڈ کی ماضی میں ایسی ہی سیاسی صورتحال کے دوران دبنگ انٹری کو بھی امکان خیال کرتے ہیں مگر پیپلزپارٹی مسلم لیگ اور خود پی ٹی آئی اس بات کے سیاسی بساط کے لپیٹے جانے کے حق میں نہیں ہیں، سبھی اس سیاسی بحران کےْ پرامن حل بارے دعاگوہیں خدا کرے کہ 2 نومبر کا حکومتی پینچ مناسب حل تلاش کرلے اور ملک کسی اور بڑے بحران کی جانب نہ بڑھنے پائے۔{jcomments on}
88