84

ابن نظر/سردی کی تیاریاں

آج سے 20,25سال قبل سردیوں کی باقاعدہ تیاریاں کی جاتی تھیں اس وقت بارشیں بھی زیادہ ہوتی تھیں ساون بھادوں کی برساتیں کچے مکانوں کی چھتوں ،صحن تک کو مٹی کو بہا لے جاتی تھیں جن کھیتوں کی فصلیں (آڑیاں)بند مضبوط نہیں ہوتے تھے ان میں شگاف پڑ جاتے تھے سردیوں کی بارشیں ہونے سے پہلے پہلے جو ایک ڈیڑ ھ ماہ خشکی کے ہوتے تھے ان کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے صحن گارے سے لیپ کیے جاتے چھت جھاڑ کر ان پر بھی مٹی کے اندر گوبر اور بھوسہ شامل کر کے پاؤں کی مدد سے خوب کوٹ کوٹ کر مکس کیا جاتا تھا اور اس کا لیپ کرنے کے لیے رشتہ دار ،محلے دار خواتین کی مدد حاصل کی جاتی تھی ۔مرد حضرات کھیتوں ،کھلیاروں کے پشتے مضبوط کرتے،کراہ کے ذریعے،کسی ،پھاوڑے چلتے رہتے اور رب کی دی گئی زمین کی رکھوالی بھی ہو جاتی اور شکرانہ بھی ادا ہو جاتا ۔اناج کو خشک کر کے محفوظ کر لیا جاتا تھا۔مونگی پھلی،گڑ کی سوغات بھی تیار کی جاتی تھی یہ دیسی تحفے سردیوں میں ایک دوسرے کو دئیے جاتے اور محبتیں الفتیں بڑھتیں ۔آٹا پیس کر بڑے بڑے کنستروں میں محفوظ کر لیا جاتا جانوروں کے لیے چارہ بھی سنبھال کر رکھ لیا جاتا ۔آبی گزرگاہوں کے پشتے مضبوط بنانے ،ان کی صفائی اور گہرا کرنے کا مناسب وقت یہی ہوتا تھا ۔دیسی مرغیاں اس حساب سے پالی جاتی تھیں کہ سردیاں شروع ہوتے ہی ان کے انڈے کام آسکیں جانوروں کے لیے بھی خصوصی نسخے اسی موسم میں تیار کیے جاتے اور کھلائے پلائے جاتے تے۔گرم بستروں،رضائیاں،تلائیاں اور سرہانے تیار کرنے کا یہی بہترین وقت ہوتا تھا۔روئی دھننے والوں کے نخرے اسی موسم میں اٹھائے جاتے تھے سرسوں کا تیل میٹھا کرنے کا رواج اور اس کا استعمال تو شاید ہی کسی کو یاد ہو ۔لکڑی کے کوئلے اکٹھے کیے جاتے تھے جو سردیوں میں ہیٹ کے کام آتے تھے سوکھی لکڑیوں کو جمع کر کے رکھا جاتا تھا ۔ابلے جو گوبرے تیار کیے جاتے ان کو محفوظ کر کے رکھا جاتا تھا سرمایہ کی کمی ان سب کاموں کے کرنے میں آڑے نہیں آتی تھی۔کیونکہ ان میں کوئی بھی چیز خرید کر استعمال نہیں کی جاتی لکڑی جنگل سے کاٹ کر لائی جاتی تھی گوبر گھر میں رکھنے مویشیوں سے حاصل ہوتا تھا۔سرسوں کا تیل،گندم کی فصل کے ساتھ بوئی جاتی سرسوں کی فصل سے حاصل کیا جاتاتھا گڑ ہمارے خطہ پوٹھوار کی پیداوار نہیں ہے اسے خریدا جاتا تھایہ سارے کام سخت محنت ،نظم و ضبط اور سمجھداری کے متقاضی ہیں ان کاموں کو انجام دینے والے بظاہران پڑھ مگر حقیقتا فطرت شناس،محنتی اور مسلسل عمل پر یقین رکھنے والے تھے آج سردیوں کی تیاری کے لیے ہم لوگ کیا کرتے ہیں ۔روپیہ پیسہ ہاتھ میں لے کر بازاروں کا رخ کرتے ہیں نت نئی چیزیں خریدتے ہیں ۔آج سردی شروع کل خریداری اور پرسوں کی ان چیزوں کا استعمال شروع کر دیتے ہیں نہ ان چیزوں کی قدرو قیمت اور نہ ہی ان کی حقیقی ضرورت سے واقف اسے خوشحالی قرار دینے والے بھی ہیں بلاشبہ آج ہمارے حالات بہت اچھے ہیں سرمایہ کی ریل پیل ہے جوں جوں وقت گزر رہا ہے سرمایہ کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے نوکریاں مل نہیں رہیں زمیندار کی پیداواری صلاحیت ختم ہورہی ہے مہنگی کھاد اور تیل خشک سالی ،آبی جارحیت کی وجہ سے غذائی قلت کی طرف پیش قدمی جاری ہے سرمایہ جمع کرنے اور ضرورت سے زائد اپنے پاس جمع رکھنے کی ہوس نے عزت غیرت کو تار تار کر دیاہے۔مرد حضرات جائز و ناجائز ذرائع سرمایہ کے حصول کے لیے استعمال کر رہے ہیں خواتین کو سرمایہ کے حصول کے لیے گھروں کی چار دیواری سے باہر نکل کر معاشرہ کی بے رحم اور زہر آلود نگاہوں کا شکار ہونا پڑ رہا ہے،کچھ لوگ پردیس میں دکھ جھیلتے ہیں ۔محنت مزدوری اور صحت کا ستیاناس کرنے کے بعد چند روپوں کا حصول ممکن ہوتا ہے اب تو خلیجی ممالک سے تواتر کے ساتھ ہماری افرادی قوت کو واپس بھیج رہا ہے جس سے ان خاندانوں کے معاشی حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں ۔بات سردیوں کی تیاری سے شروع ہوئی تھی اب تو صرف پرانی باتیں یاد کی جاسکتی ہیں ان پر عمل بہت مشکل ہے کیونکہ زمانے کے انداز بدل گئے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں