110

آپریشن سے پہلے اعلان کی ضروت کیوں؟طاہر یاسین طاہر

دفاعی حوالے سے اگر سوچا جائے تو کبھی بھی کوئی فورس اپنے منصوبے قبل از وقت افشا نہیں کرتی۔ نقصان اس کا یہ ہوتا ہے کہ اس سے دشمن اپنی پوزیشن تبدیل کر لیتا ہے یا پہلے سے زیادہ چوکنا ہوجا تا ہے۔یہ تجربہ ہم اندرونِ ملک کی گئی،کئی ایک ان کارروائیوں میں کر چکے ہیں جو دہشت گردوں کے خلاف کی ہیں۔مثلاً سوات آپریشن کے دوران کئی ایک دہشت گرد جنوبی وزیرستان ،شمالی وزیرستان اور اپنی حقیقی جائے پناہ افغانستان میں بھاگ گئے تھے۔اسی طرح جب جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تو دہشت گرد شمالی وزیرستان بھاگ گئے۔سوال یہ ہے کہ پھر لڑتے کون تھے؟ بھاگنے والے کمانڈرز اور ان کے معتمد ساتھی ہوا کرتے ہیں۔باقی دہشت گردوں کو جنت میں حوروں کا لالچ دے کر لڑنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اور یہی لڑتے ہیں،خود کش حملے کرتے ہیں اور مارے جاتے ہیں،کمانڈر بھی لڑتے ہیں مگر وہ اپنے خود کش بمباروں کا خون گرمانے کے لیے اپنے ’’جینے کو شہادت‘‘ سے زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔اگرچہ کمانڈروں کا انجام بھی برا ہی ہوگا۔ وہی جو بیت اللہ محسود ،حکیم اللہ محسود اور ڈاکٹر عقیل کاہوا۔تازہ کارروائی میں ہم نے دیکھا کہ جب جون2014میں پاک فوج نے آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تو ملا فضل اللہ روپوش ہو گیا جو کہ آج کل افغانستان میں ہے۔ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ جب جون2014میں فوج نے آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تو اس وقت موجودہ حکومت کالعدم تحریکِ طالبان اور اس کے ذیلی دیگر ہم فکر گروپوں سے مذاکرات کر رہی تھی کہ پشاور سکول کے المناک واقعے کے بعد حکومت اور ان مذہبی جماعتوں کو بھی آپریشن ضربِ عضب کا ساتھ دینا پڑا جو اس آپریشن کو مذاکرات کے ذریعے بند کرنے کی بات کرتی تھیں۔آپریشن ضربِ عضب اگرچہ کامیابی سے جاری ہے مگر جن دنوں حکومت اور کالعدم تحریکِ طالبان کے درمیان مذاکرات جاری تھے تو ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے یہ بیانات بھی آتے رہتے تھے کہ اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو کارروائی کی جائے گی۔اشارہ واضح تھا کہ تمہارے مطالبات ہی ایسے ہیں کہ آخرِ کار کارروائی ہو گی چنانچہ بھاگ جاؤ!ہم نے یہ بھی دیکھا کہ کراچی آپریشن سے ہفتوں پہلے اعلان کر دیا گیا کہ کراچی میں رینجر آپریشن کرے گی۔بے شک قانون نافذ کرنے والے ادارے جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔مگر منظم گروہوں اور کالعدم تنظیموں جو،اس وجہ سے ریاست کی جانب سے کالعدم قراردی جاتی ہیں کہ ان کے کام ریاستی مفادات کے خلاف ہوتے ہیں ان کے خلاف کارروائی سے پہلے انھیں کارروائی کرنے کی وارننگ جاری نہیں کی جاتی۔تمیہدی گفتگو میرا مقصود نہیں۔اخبارات نے لیڈنگ سٹوری شائع کی کہ وزیرِ اعلی پنجاب جناب میاں شہباز شریف صاحب اور کور کمانڈر لاہور جناب صادق علی صاحب کے درمیان ایک تفصیلی ملاقات ہوئی،جس میں طے پایا کہ پنجاب کے دو اضلاع تونسہ اور راجن پور میں رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے گا۔یہ بھی طے ہوا کہ جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں کسی بھی حد تک جایا جائے گا۔یہ ایک احسن اقدام ہے۔ اگرچہ دیر آید درست آید مگر آپریشن کا فیصلہ تو ہوا۔ تحفظات مگر اور طرح کے ہیں۔کیا یہ آپریشن واقعی کالعدم قرار دی گئی ان ساری تنظیموں کے خلاف بھی ہوگا جو نام تبدیل کر کے کام وہی کر رہی ہیں جن کاموں کی وجہ سے وہ کالعدم قرار پائیں؟ کیا یہ آپریشن ان سہولت کاروں کے خلاف بھی ہوگا جو پنجابی طالبان کی شاخ سے کسی نا کسی طرح نتھی ہیں؟یا ان کے سہولت کار ہیں؟کیا یہ آپریشن ،بلکہ آپریشن کے فیصلے اور اعلان سے پہلے ہی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مذکورہ اضلاع کی وہ سرحدیں سیل کر دیں جو انھیں دوسرے شہروں،صوبوں یا پھر اضلاع سے ملاتی ہیں؟یا کیا یہ آپریشن اس لیے ہو گا کہ اسمبلی کے اندر اور باہر یہ شور بہت ہو رہا ہے کہ سندھ میں تو آپریشن جاری ہے مگر پنجاب میں کیوں نہیں؟ بے شک یہ بات درست ہے کہ جنوبی پنجاب میں دہشت گردی جسے انتہا پسندی کہہ کر نظر انداز کیا جاتا ہے جڑیں مضبوط کر چکی ہے۔مگر اس وقت بوجہ یہ لوگ خاموش ہیں اور پنجاب کے اندر کوئی بڑی کارروائی نہیں کر رہے۔در اصل میں تخصیص کسی بھی حوالے سے عدل کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔اگر یہ کہہ کر راجن پور میں کارروائی کی جائے گی کہ یہاں صرف ڈکیت گروہ اور کچھ چھوٹے موٹے انتہا پسند پناہ گزین ہیں تو یہ درست نہ ہوگا۔ہمیں تمام طرح کے دہشت گردوں اور فکری مغالطہ پیدا کرنے والوں کے خلاف ڈٹ جانا ہے۔دہشت گردی صرف کراچی،اندرونِ سندھ،کے پی کے،یا بلوچستان کا مسئلہ نہیں کہ جہاں لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر انھیں شہید کیا جاتا ہے،بالکل اسی طرح جس طرح گلگت و بلتستان کے سانحات ہوئے،بلکہ دہشت گردی کی بعض بھیانک جڑیں بد قسمتی سے پنجاب میں بھی ہیں اور یہ ناسور اس وقت پورے ملک کا مسئلہ ہے اور پوری قوم نے یکسوئی کے ساتھ مل کر انسانیت اور دین کے دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ہمیں ان افراد،تنظیموں اور گروہوں کو بھی دیکھنا ہے جو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد بھیس بدل کر گھات لگائے بیٹھے ہیں۔اگر ان کے خلاف کارروائی سے قبل اعلان کر دیا جائے کہ کارروائی کریں گے تو بلاشبہ یہ اپنے پشت بانوں کے ہاں بھاگ جاتے ہیں یا اندرونِ ملک ہی اپنا ٹھکانہ بدل لیتے ہیں یا پھر اپنے ان سہولت کاروں کی کمین گاہوں میں چلے جاتے ہیں جنھیں سلیپرز سیل کہا جاتا ہے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں