آج یوم آزادی کو ملی جوش وجذبہ سے منارہا جارہا ہے ، ہر طرف پرچم لہرائے جا رہے ہیں ، چار سو ملی نغمے گوج رہے ہیں، بازاروں میں جھنڈیوں کے سٹال سجائے جا رہے ہیں ، گلیوں اور گھروں کو جھنڈیوں سے آراستہ کیا جا رہا ہے ، چھتوں پر بڑے سے بڑے جھنڈے لگانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے، گاڑیوں پر بھی کسی نے چھوٹا جھنڈا اور کسی نے بڑا جھنڈا لگا رکھا ہے اور بعض حضرات نے تو پوری گاڑی ہی جھنڈے کے نیچے چھپا دی ہے ۔ کہیں تقریبات کا اہتمام ہو رہا ہے ، جہاں مہمان حضرات کو مدعو کیا جائے گا ااوروطن کی عظمت ، شان و شوکت ، آزادی و خودمختاری پر تقاریر کی جائیں گیں ۔ یہ تمام چیزیں وطن سے محبت کو ظاہر کرتی ہیں ۔ آ ج ہر پاکستانی وطن سے اپنی محبت کو ظاہر کر رہا ہے ۔ الحمدللہ پاکستانی قوم ایک محب وطن قوم ہے لیکن یہ محبت صرف اگست کے چودہ دن نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہر مہینہ ، ہر دن اور ہر لمحہ وطن کی محبت ہمارے دلوں میں رہنی چاہیے اور ہم ہر دم اس پاک وطن سے محبت کا اظہار کرتے نظر آئیں اور اس اظہار کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہم پورا سال چھتوں پر جھنڈے لگاتے رہیں ، گھروں کو جھنڈیوں سے سجاتے رہیں ، بازاروں اور گلیوں میں ملی نغمے پورا سال گونجتے رہیں بلکہ اس محبت کا مطلب حقیقی محبت سے کہ ہم اس وطن کو بنانے کا مقصد اپنے پیشِ نظر رکھیں کہ یہ وطن کیوں بنایا گیا تھا، انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کا مقصد کیا تھا، ہندوؤں سے تقسیم کرانے کی وجہ کیا تھی ؟ کیوں ہم نے سو سال آزادی کے لیے جدوجہد کی ؟ کوں ہم نے پچاس سال تقسیم کے لیے دھکے کھائے ؟ وسیع و عریض سلطنتِ ہندوستان کو تقسیم کرنے کے پیچھے کیا محرکات کار فرما تھے جنہوں نے مسلمانوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے لیے الگ وطن حاصل کرنے لیے جدوجہد کریں ؟ ان تمام سوالوں کے جوابات جاننے کے لیے آپ تھوڑا سا پیچھے چلے جائیں اور وہ وقت یاد کریں جب ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت قائم ہو گئی ، حکومتِ برطانیہ کا سکہ براہ راست رائج ہو گیا ،1857ء کی جنگ آزادی میں اگرچہ ہندوؤں نے بھی بھر پور حصہ لیا مگر ناکامی کے بعد جب انگریز غالب آگئے تو ہندوؤں نے ان کے منظورِ نظر بننے کے لیے جنگ کا سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈال دیا ۔ حکومت نے مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار گردانتے ہوئے ان سے انتقام لینے کا فیصلہ کیا اور مسلمانوں پر ہندوستان کی انتہائی کشادہ زمین بھی تنگ ہو گئی، مسلمانوں پر ملازمتوں کے دروازے بند ہو گئے ، ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں ، انکے کاروبار تباہ کر دیے، تعلیمی اداروں میں داخلہ ممنوع قرار دیا، مختلف قسم کی مذ ہبی پابندیاں عائد کر دی گئیں ۔ کانگریسی وزارتوں کے دور میں مساجد کو تالے لگ گئے ، گائے کی قربانی پر پابندی لگا دی گئی، ہر طرح کی مراعات سے مسلمانوں کو محروم کر دیا گیا۔ ہندوستان کے مسلمان اپنے ہی وطن میں غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ لہٰذا انہوں نے اپنے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا اور اس کے لیے دن رات محنت کی ، آزادی کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو عبور کر گئے ہر طرح کی تکلیف برداشت کی مگر آزادی کے مطالبہ سے ایک قدم پیچھے نہ ہٹے۔
آج اس وقت کو یاد کرنے کی ضرورت ہے جب مسلمانانِ ہند اپنے نئے وطن کی طرف ہجرت کر رہے تھے اور ہندو نہتے مسلمانوں پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑے تھے ، اسوقت کو یاد کریں جب مسلمانوں کے گھروں میں گھس کو ہندو ایک ایک فرد کو چن چن کر ذبح کر رہے تھے ، اس وقت کو یاد کریں جب مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگائی جا رہی تھی ، اس وقت کو یاد کریں جب مسلمانوں کی بستیاں اجاڑ دی گئیں ،جب مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں ، ضرورت اس وقت کو یاد کرنے کی ہے جب مسلمان اپنے نئے وطن کے شوق میں ریل گاڑی میں سوار ہو کر پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کر رہے تھے اور راستہ میں وحشی ہندوؤں نے پوری ریل گاڑی کو آگ لگا کر سب کو راکھ کر دیا۔ مسلمانوں نے اپنے آباؤاجداد کی جائیدادیں چھوڑیں ، وہ گھر چھوڑے جن سے ان کے بزرگوں کی یادیں وابستہ تھیں ، وہ گلیاں چھوڑیں جہاں ان کے بچپن کے سہانے دن گزرے تھے یہ سب کچھ انہوں نے کیوں کیا؟ اس لیے کیا کہ وہ ایک ایسا خطۂ ارض حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں انہیں مکمل آزادی حاصل ہو ،جہاں وہ خود مختار ہوں ، اس وطن کی ذرخیز مٹی سے فائدہ اٹھائیں ۔ جہاں انہیں مذہبی آزادی نصیب ہو ، جہاں اللہ تعالیٰ کے احکامات نافذ ہوں ، نبی کریمﷺ کی سنتیں رائج ہوں ، اسلامی قوانین کا نفاذ ہو ، ہر قانون قرآن و سنت کے مطابق بنایا جائے ۔ یہ قربانیاں انہوں نے اس لیے دیں کہ وہ یہاں اپنی تہذیب کو فروغ دینا چاہتے تھے ، اپنی زبان کو ترقی دینا چاہتے تھے ، اس شوق میں لاکھوں مسلمان شہیدہوئے ، لاکھوں زخمی ہوئے ، ان گنت نے اپنے گھر بار چھوڑے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ہماری آنے والی نسلیں اس ملک میں آزادی و خود مختاری کی زندگی گزاریں ، یہاں اسلام کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال سکیں ، ان پر کسی کفریہ طاقت کا دباؤ نہ ہو ، وہ مساجد کو آباد رکھیں ، پکے سچے مسلمان بن کر رہیں اس وطن کی ہر طرح سے حفاظت کریں ، اسے ترقی دیں ان بزرگوں کی قربانیوں کو یاد کرنے کے بعد اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اس وطن کے لیے کیا کیا، ہم نے آج تک اس وطن کو کتنی ترقی دی ، جس مقصد کے لیے ہمارے آباؤاجداد نے اپنا سب کچھ لٹا دیا ہم نے وہ مقصد کہاں تک پورا کیا ۔ در حقیقت جشنِ آزادی منانے کا مقصد صرف جھنڈے لگانے اور تقریبات منعقد کرنے تک ہی محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان دنوں ایک عزم کرنا چاہیے ، اپنے اہداف مقرر کیے جائیں کہ اس سال ہم نے اپنے وطن کے لیے کیا کرنا ہے ۔ گزشتہ کوتاہیوں کو مدنظر رکھ کر ان پر شرمندگی کے ساتھ ساتھ انکی تلافی کا عزم کیا جائے۔ یہ سوچیں کہ اس ملک نے ہمیں آزادی جیسی نعمت عطا کی ، ہر طرح کی سہولت دی اور ہم نے اس کو کیا دیا ،ہم نے تو خوب لوٹ مار کی ، کرپشن کی ، اسکی عوام کو خوب ستایا، ہم نے اسے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن یہ ملک صرف ان لوگوں کی قربانیوں کی وجہ سے قائم ہے جنہوں نے آزادی کے وقت اپنا سب کچھ قربان کر دیا ۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو ایک خاص نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اور وہ نظریہ ، نظریۂ اسلام ہے ، اس لیے اس وطن کو ایک اسلامی ریاست بنانے میں ہی اس کی فلاح ہے ، ہم نے آئین تو اسلامی بنادیا مگر اسلام صرف آئین کی شقوں تک ہی محدود رہ گیا، لہٰذا اس وقت اس عہد کی تجدید کی ضرورت ہے کہ ہم اس وطن کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی ریاست بنائیں گے، اسے ترقی دیں گے اور اسے اتنا مظبوط کریں گے کہ یہ صرف اپنا ہی نہیں بلکہ تمام اسلامی ممالک کا دفاع کرنے والا ملک بن جائے اور اسلام کا قلعہ کہلانے کا صحیح حقدار بن جائے چاہے اس کے لیے ہمیں کچھ بھی کرنا پڑے ۔ یہی مقصد جشن آزادی کی تقریبات منعقد کرنے کا ہوتا ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے ان کے مقاصد کو پورا کرنے کا عزم کریں ۔{jcomments on}
78