کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’دھول چہرے پہ تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے ۔ آج کل کے دور میں یہ حقیقت ہے کہ انسان اپنے دل میں دوسروں کیلئے بے پناہ کینہ ‘ حسد او ربغض رکھتا ہے اسی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بہت سی معاشرتی برائیاں جنم لے رہی ہیں کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کو اپنے لیے بوجھ اور دوسروں کیلئے عذاب بنائے رکھتے ہیں نہ تو وہ خود اچھی زندگی گزارتے ہیں اور نہ دوسروں کو اچھی طرح جینے دیتے ہیں۔ اسی طرح کئی لوگ خود کو اچھا سمجھتے ہیں دوسروں کو کوستے اور برا بھلا کہتے ہیں یہ برائی ہمارے معاشرے میں اتنی بڑھ چکی ہے کہ کسی ماہر نفسیات سے اس مسئلہ کے حل کیلئے رجوع کرنے کی ضرورت نظر آتی ہے مگر اس مسئلے میں ماہر نفسیات کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے آ پ کو درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دھول اگر انسا ن کے چہرے کے اوپر ہو تو آئینہ بے شک صاف کرتے رہیں دھو ل اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک چہرے کو صاف نہیں کیا جائے گا ۔ اسی طرح اگر اپنے قلب کو کینہ ‘ حسد اور بغض سے پاک نہیں کیا جائے گا تو دوسرا کوئی بھی ہمیں اچھا نظر نہیں آئے گا ۔دوسروں میں عیب ڈھونڈنے کے بجائے اپنے عیب پہلے ختم کرنے کی ضرور ت ہے اصل میں آج کل جھوٹ کو سچ تسلیم کرنے والے احمقوں کی کمی نہیں جو اصل حقیقت سے قطع نظر صرف دوسروں کی برائیاں ڈھونڈتے ہیں کوئی معاشرے کو دوش دیتا کہ معاشرہ ٹھیک نہیں ۔معاشرہ افراد سے بنتا ہے تو جب افراد کے دل ٹھیک نہیں ہوتے تو معاشرہ کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے ۔پہلے ہر فرد کو خود اپنی روش کو درست کرنا چاہیے اپنے دل کو پاک کرنا چاہیے جس کی وجہ سے انہیں سب کچھ درست ہوتا ہوا نظر آئے گا۔ معاشرے کے ہر فرد کو اپنے دل سے دوسروں کیلئے نفرت ‘ حسد ‘ کینہ اور بغض جیسی بیماریوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ۔ تبھی تو معاشرہ بھی انہیں اچھے انداز سے آگے بڑھتا ہوا نظر آئے گااور معاشرے میں بسنے والے لوگ بھی اچھے نظر آئیں گے۔ اگر ایسے ہی ہر کوئی یہ سوچے کہ اگر کوئی میرے لیے نقصان کا باعث نہیں تو میری رائے اس کے متعلق درست ہونی چاہیے ۔اگریہ مشکل کام کوئی کرنے سے قاصر ہے تو پھر بات آئینے کو صاف کرنے والی ہوگی بجائے خود کو صاف کرنے کے ۔شاعر مشرق علامہ اقبال کی نظم کے چند اشعار یہاں جھجتے ہیں۔
لطف مرنے میں باقی نہ مزا جینے میں
کچھ مزہ ہے تو یہی خون جگر پینے میں
کتنے بے تاب ہیں جو ہر مرے آئینے میں
کس قدر جلوئے تڑپتے ہیں میرے سینے میں
اسی گلستان میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ جو سینے میں رکھتے ہیں وہ لالے ہی نہیں
غرض دوسرو ں کی غیبت کرنا لوگوں کا وطیرہ بن چکا ہے لیکن جب تک اپنے آپ کو ٹھیک نہیں کریں گے ہمیں دوسروں کے عیب نظر آتے رہیں گے۔{jcomments on}
84