134

امتہ الحسین اردو ادب اور استعار کر بلا/ایم رباب عابدی

اِس کائنات کے ظہور پذیر ہونے کے بعد اس زمین نے مختلف حوادث دیکھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ روئے زمین پر رونما ہونے والے تمام حوادث انسان کے قلب و زہن پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ حادثہ جتنا بڑا ہو اس کے اثرات اتنے ہی طویل مدتی ہوتے ہیں کچھ واقعات یا حوادث ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ پر اَن مٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔چودہ سو سال قبل 10 اکتوبر 680ء چشم فلک نے دشتِ کربلا میں ایک ایسا منظر دیکھا جو ظلم و بر بریت کی داستان کے ساتھ ساتھ تسلیم و رضا ، وفا شعاری بیغامِ امن حریت پسندی کی تصویر تھا۔پیدائش آدمؑ سے لے کر آج تک خیر و شر کا سفر پورے طمطراق سے جاری و ساری ہے واقع کربلا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے یہ واقعہ جس شدت کے ساتھ پیش آیا اُسی شدت کے ساتھ ہر تاریخ ، ہر مذہب ہر معاشرت پر گہرے اثرات مرتب کر گیا۔قرطاس کربلا پر خون سے رقم کی گئی اس داستان نے دنیائے ادب جس انقلاب برپا کر دیا نہ صرف عربی فارسی اردو ادب بلکہ عالمی ادب عالیہ پر بھی گہرے اثرات مرتب کئے۔ کربلا اسر حسینیت ایسا استحارہ بن گئے جس نے ادباء، شعرا، دانشوروں، مفکرین کو شعور کی وہ بلندی عطا کی جس کے ذریعے ہر صنف سخن اپنی اپنی معراج تک پہنچ گئی۔مذہب شعور کا نام ہے اور کربلا شعور کی بلندی کا نام ہے جو کہ پیغامِ کربلا ابدیت اور آفاقیت کا حامل ہے امامِ حسینؑ کی قربانی کسی مخصوص مذہب علاقے رنگ ونسل طبقہ یا افراد کے لئے نہیں تھی یہ قربانی بقائے انسانیت کے لئے تھی اس لئے یہ پرکھنا بے جانہ ہو گا کہ کربلا متاع انسانیت ہے اور حسین تمام اقوام عالم کا اثاثہ ہیں یہی وجہ ہے کہ طبقہ فکر پر کربلا والوں کی شخصتوں کے گہرے نقوش نظر آتے ہیں۔شاعر معاشرے کی تمام افراد میں سب سے زیادہ حساس ہوتا ہے جو مظلوم افراد یا مظلوم طبقہ کو اپنے ادراک میں احساس کی عینک سے دیکھتا ہے اس لئے محسنِ انسانیت کو انسانیت کا نجات دہندہ تصور کر تے ہوئے اپنے اشعار یا نثر میں بالواسطہ یا بلاواسطہ خراجِ تحسین پیش کرتا ہے موجودہ دور میں اگر شعرا ئے کرام کی کاوشوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان کے جذبوں دکھوں غموں آرزوں کی عکاسی کے لئے جدید شعراء کربلا کا سہارا لئے اپنی فکر کی ارتقائی منازل طے کرتے چلے جارہے ہیں۔عصرِحاضر کے تمام شعراء جب حق گوئی و صداقت ایثار وفا قربانی امن ان تمام کی بلندی کو چھونے آ لگتا ہے کیوں کہ کربلا وفا کی انتہا کا نام ہے دکھ درد اس دشت میں آکر گھٹنے ٹیک دیتے ہیں حق گوئی و صداقت شہدانِ کربلا کی بلائیں لینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔دونوں کو پیاسا ما رہا ہے کوئی یزید،یہ زندگی حسین ہے اور میں فرات ہوں (بشیر بدر)
عشق تو سر ہی مانگتا ہے میاں
عشق ہر کربلا کا سایہ ہے
سچ اگر یو نہی قتل ہوتا رہا
یہ نگر بھی کربلا نہ ہوجائے۔مبشر بیگ
کوئی مظلوم زنجیر میں آجاتا ہے
نورِ گریہ میری تصویر میں آجاتا ہے۔وصی حیدر
کربلااپنے یہی معیار سے وابسطہ ہے
سارا دین ایک ہی انکار سے وابسطہ ہے
آخر مقابلے کا نتیجہ یہی تو ہے
لمحہ یزید کا تھا زمانہ حسینؑ کے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں