117

آپ کا امیدوار کون ہے؟گل احمد یاسین

وطن عزیز میں ووٹ کے بارے میں ایم اے پاس افرادکا جو تصور ہے وہ یورپ کے ایک ان پڑھ فرد کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے ہمارے ہاں ووٹ کا حقیقی حقدار وہ ہوتا ہے جوہماری گلیاں پکی کر اے بجلی فراہم کرائے بچے کو نوکری دلا دے اور خاص کر تھانے میں کام نکلوادے ہماری عقل یہ کب سمجھے گی کہ روڈ بنانا گلیاں بنوانا کنٹونمنٹ اور ہائی وے کا کام ہے اگر کوئی فرد ایسا دعوی کرتا ہے تو سمجھ لو کرپٹ ہے اس نے متعلقہ ادارے کو رشوت دی یا اختیارات کا ناجائز استعمال کیا ۔عموما متعلقہ افسر سے سازباز کی جاتی ہے اور ففٹی ففٹی کا اصول اپنایا جاتا ہے اسی طرح بجلی فراہم کرنا واپڈا کا کام ہے نا کہ سیاسی قوت کا سیاسی افراد وہاں بھی پنگا ہی کرتے ہیں اور عوام سے پیسے نکلوا لیتے ہیں اور نوکری دلوانا تو سراسر میرٹ کا قتل ہے اسے افراد تو واجب القتل ہیں جو آپ کے بچے کا حق مجھے دلاتے ہیں یا کسی اور کو خدارا ایسے افرادسے تو کوسو دور بھاگو یہ لوگ ایک طرف حقدار کا حق مارتے ہیں دوسری طرف نااہل لوگو کو ہمارے سر سوار کرتے ہیں تیسری طرف سے پیسے یا ووٹ بٹورتے ہیں اور متعلقہ ادارے میں گڑبڑ کرتے ہیں اور انھیں غلط عادات ڈالتے ہیںیہ لوگ قوم کا ناسور ہیں ۔انھیں اختیار دینا اپنی نسلوں کا قتل ہے ان سے بچئے اگر چہ یہ آپ کا پسندیدہ لیڈر ہی کیوں نہ ہو ایم این اے یا اہم پی اے کا کام قانون بنانا یا اس پر عمل کرانا ہوتا ہے وہ ایسے قانون بنوائے کے آپکو بجلی فراہمی کے لئے واپڈا آفس جانا ہی نہ پڑے بلکہ متعلقہ ملازم میٹرریڑریا بل ڈسٹریبوٹر خود آپ کے پاس چکر لگائے ہر نئے مٹیر پر مقرر کردہ کمشن ملازم کی تنحواہ میں شامل ہو جائے اور اگر کسی علاقے میں بجلی مہیا ہونے کے باوجود میٹر نہ لگے ہو تو ملازم کی تنخواہ سے کٹوتی بھی کی جائے دیکھئے کیسے واپڈا والے پولیو ورکر کی طرح اپ کے پاس خودچکر لگائے گا گیس کنکشن بھی ایسے ہی لگائے جائے ملازمت کا جانسہ دینے والو کو یا دعوی کرنے والوں کو سیاسی طور پر نااہل قرار دیا جائے اور قرار واقعی سزا دی جائے اور بھی حل موجود ہیں ایسے دعویدار کو ووٹ دہندہ کرپٹ اور بے ایمان سمجھے اور سڑکیں بنوانے والے کو غدارجو ہماری ووٹ لے کر اختیارات کا غلط استعمال کرنے اتھارٹی کے پاس جا پہنچا وہاں سے کمشن لیا ٹھیکہ کروایا پیسے کمائے وہ سیاستدان جو ہماری ٹرانسفر کا وعدہ کرے سمجھو مکار ہے بے ایمان ہے قائداعظم کی خدمت پر مامور نرس نے جب سفارش کے لئے کہا تو آپ نے فرمایا بیٹی یہ کام محکمہ صحت کے آفسر کا ہے میرا نہیں وہ بہتر جانتا ہے کہ کیسے کہاں لگانا ہے میں ا س معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا تو ہمارے سیاستدان کون ہوتے ہیں جو تمام محکموں کو لگام دینے کے ازلی وارث بنے بیٹھے ہیں ۔ ایسی طرح تھانے کا محکمہ تو ان افراد نے اپنے چنگل میں لیا ہوا ہے اگر تمام ووٹ کنندگان تہیہ کر لیں کہ جوافراد تھانے کے ٹاوٹ ہیں وہ نہ تو آپ کے وفا دار نہ میرے۔ کل کلاں اگر آپ سے اختلاف ہوا تو آپ کو بھی رگڑ دیں گے ووٹ دیتے وقت کون دیکھتا ہے۔ ان لوگوں مسترد کر دیں۔ووٹ دیتے وقت ان سے پوچھیے وہ تھانے کے معاملات میں آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں اگر تھانہ کلچر بدلنے میں وہ کوئی معقول رائے رکھتے ہیں توخوش آمدید ورنہ رد۔معقول رائے یوں ہو سکتی ہے(۰۲لاکھ افراد کے لئے ایک تھانے دار قابلیت لگ بھگ ایف اے پاس جدیدسائنسی آلات و علوم سے تقریبا نا بلد آفسر نا منظور نامنظور ان کے پیکج نہ بڑھاے بلکہ انھیں واسا بلدیہ جیسے دوسرے اداروں میں بھجیں۔ تھانے کی جگہ ایک مکمل ادارہ ہو جہاں بینکوں کی طرض کے کاونٹر ہوں لوگ بغیر ڈر خوف کے آجا سکیں انھیں کسی سفارشی کی ضرورت نہ ہو دی جانے والی درخواست چار یا پانچ مراحل سے گزرے اور ہر مرحلے پر دو یا تین ملازم ہو جو درخواست گزار یا کسی کی مرضی یا منشا سے نہ سلیکٹ ہو بلکہ آٹو سسٹم سے منتخب ہو وہ درخواست پر عمل درآمد کریں اور قابل عمل درخواست کو ضروری کاروائی کے لئے متعلقہ عملہ کو بھیج دیں۔وہ سکشن اب گرفتار وغیرہ کا پروسس کرے )۔میں صرف ایک امیج پیش کر رہا تھا ۔وطن عزیز کا یہ محکمہ سدھارنا مشکل نہیں آپ بس آپنے ووٹ کا درست استعمال کریں ۔ذاتی تعلقات خاندانی افراد یا مالی مفادات سے وابستہ افراد کو چھوڑیے قابل لوگو کو چنئے آپ کا ایک غلط کام کرنے والا سب کے غلط کام کرے گا غلط نظام کرے گا غلط انجام کرے گا اور آپ کی نسلوں کو غلام کرے گا ۔ جاگئے اور جاگتے ذہین والو کو ووٹ دیں۔ایک میٹر لگانے ،ایک پوسٹنگ کرانے ،ایک پرچہ کٹوانے ،ایک گلی بنوانے کی خاطر نظام کو داو پر نہ لگایءں ۔ووٹ کی حقیقت کو جانیئے اگر کسی نے آپ کا مندرجہ بالا کوئی کام کیا ہے تو اس کا احسان مند ہونے کی ضرورت نہیں ووٹ مانگنے آئے تو اسے یاد دلائیں کہ آپ تو ایسے کاموں میں ملوث ہو آپ کو کیسے صاحب اختیار بنا دیں۔یاد رکھئے اگر ہم نہ سمجھ سکے تو ہماری نسلیں اسے ہی افراد کی غلام رہیں گی۔ ووٹ کو اور ووٹ والے کمرے کی تنہائی کو حقیر نہ جانئے۔جس محکمہ یا جگہ پر سفارش کی طلب ہو وہاں اصلاحات کی ضرورت ہے اور ووٹ یا الیکشن بہترین وقت ہے اصلاحات کا ۔ان سے اصلاحات مانگیے ووٹ کے امیدوار کا پیمانہ شخصیت ،تعلقات یا دولت نہیں تبدیلی کا منشورہے اور تبدیلی کا نعرہ مت سنیے تبدیلی کا مواد مانگئے۔اگر پسند آے تو اللہ تبارک کا نام لے کر ووٹ دیں اگر تبدیلی کا منشور پسند ہے تو بہتر ہے تحریری کام کر یں اور وقت آنے پر یاد دلائیں۔ اگر ٹس سے مس نہ ہو تو کاپیاں کرا کر علاقے کی دیواروں پر تو لگائی جا سکتی ہیں۔ تاکہ ووٹ ضائع نہ ہو کم از کم دوبارہ وہ لوگ تو نہیں آئیں گے اجلے کپڑے پہن کر ۔۔۔آخری بات آپ پورے ملک کے ٹھیکہ دار نہیں بس اتنا مانگئے کہ ہمارے محلے میں آنے والابجلی گیس کا میٹر ریڈرنئے میٹر لگانے کا ذمہ دار ہو گا ۔اتنی سی تبدیلی موجودہ الیکشن کے لئے کافی ہے ایک نئی طرز کی ابتدا ہو گی ہمارے لئے ایک نیا امتحان ہو گا .{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں