میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میری پوری افریقی،ایشیائی نسل میں سے کوئی نہیں جانتا کہ براعظم ایشیاء کیا ہے ، میرے باپ دادا کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ الیکشن کیا ہوتاہے ،وزیراعظم کیا ہوتا ہے ،جمہوریت کیا ہوتی ہے اور نہ ہی ان کو یہ معلوم تھا کہ ایشیاء میں کوئی ملک ہے جس میں کسی سیاسی جماعت کا انتخابی نشان شیربھی ہے ، مجھے اس بات سے کوئی اعتراض نہیں کہ سیاسی جماعتیں اور لوگ میرا نام استعمال کرتے ہیں لیکن اس وقت دکھ ہوتا ہے جب وہی جماعتیں وہی لوگ غلطیاں کرتے ہیں توگالی شیرکوپڑتی ہے ۔ وجود کائنات سے لیکر اب تک میری پوری نسل نے اتنی گالیاں نہیں سنی تھی جتنی میرا نام سیاست میں استعمال کرنے کے بعدہمارے حصے میں آئی ہیں۔ملک میں پٹرول شارٹ ہوجائے شیر کوگالی ، بارہ بارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو تو شیر کو گالی ،الیکشن کیا چیز ہے میری بلا سے لیکن اس میں بھی منظم دھاندلی ہوجائے تو شیر کو گالی ، سستی روٹی سکیم کا آٹا بازار میں مہنگا فروخت ہوتو شیر کو گالی ، بنک سے رقم نکلوانے پہ ٹیکس لگے تو شیر کو گالی ، ائیرپورٹ ٹیکس بڑھے تو شیر کو گالی ، بکرے کی جگہ گدھے کا گوشت ہوٹل سے برآمد ہو تو گالی شیر کو ،100والاموبائل کارڈ لوڈ کرنے پہ 54 روپے بیلنس ملے تو شیر کو گالی ،’’ پیرس ‘‘ کی گلیاں تالاب کا منظر پیش کرنے لگیں تو شیر کو گالی ۔تاریخ گواہ ہے کہ شیرکا نام ہمیشہ بہادری کا استعارہ سمجھا جاتا تھا چاہے وہ سر درد ختم کرنے والی شیر والی گولی(پیراسیٹامول) ہو ، علیؓ شیر خدا کا نعرہ ہو یا بابا شیر بادشاہؒ خانقا ہ سے عقیدت ، شیر خان نام سے دشمن کی نیندیں اڑجاتی تھیں ، شیر شاہ سوری ؒ بہادری اور انصاف کا استعارہ مانا جاتا تھا جس کے دور حکومت میں ہندوستان میں ایک قتل تک نہیں ہوا ۔لوگ شیر کا تماشہ دیکھنے گھنٹوں لائن میں کھڑے ہوکر بیتابی سے سرکس کا ٹکٹ لیتے تھے ۔لیکن آج ہماری حالت یہ ہے کہ لوگوں نے شیر سے ڈرنا چھوڑ دیا ، کوئی ہمارا نام لیناپسند نہیں کرتا اور نہ ہی آجکل کے ممی ڈیڈی اور برگر بچوں کو مائیں ” میرا شیر پُتر “کہہ کر بلاتی ہیں ۔ہمارا کھویا وقار ایک ہی طریقے سے بحال ہو سکتا ہے اگر انسان اشرف المخلوقات ہو کر ہمارا نام استعمال نہ کرے ۔دیکھو ہم جانور ہیں اور انسان اشرف المخلوقات، اگرکوئی آپ کو جانور کہتا ہے تو آپ کو غصہ آجاتا ہے لیکن اگر کوئی شیر کہے تو آپ خوش ہوجاتے ہیں حالانکہ شیر بھی جانور ہی ہوتا ہے۔خیر یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی میں آپ کو تھوڑا سا اپنا تعارف کروادوں ۔مجھے جنگل کا بادشاہ کہتے ہیں کیونکہ مجھ میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ایک ملک کے سربراہ اور بادشاہ میں ہوتی ہیں ،یعنی اپنی رعایا میں سے جس کو چاہوں جب چاہوں شکار کر سکتا ہوں ، میری حکمرانی چونکہ معصوم رعایا پر ہوتی ہے اس لیے میرا شکار بھی یہی لوگ ہوتے ہیں، شاید اسی لیے میرے بارے میں مشہور ہے کہ شیر مرتا مر جائے گا لیکن گھاس کبھی نہیں کھائے گا، کچھ لوگ جب اعتراض کرتے ہیں کہ شیر بجلی کھا گیا، گیس کھا گیا وغیرہ وغیرہ تو انتہائی دکھ ہوتا ہے کہ یہ سب چیزیں میرے لیے گھاس کا درجہ رکھتی ہیں جو کبھی بھی میری خوراک نہیں ہوسکتی ،ویسے آپس کی بات ہے کہ میں بھی نشۂ کبر اور غرور و نخوت میں خود کو جنگل کا بادشاہ ہی سمجھتا تھا، ایک دن میرے دماغ میں آئیڈیا آیا کہ دیکھتا ہوں کتنے لوگ مجھے جنگل کا بادشاہ مانتے ہیںیہ سوچ کر میں نے رعایا سے یہ پوچھنا شروع کردیا کہ بتاؤ جنگل کا بادشاہ کون ہے ؟ سب جمہوریت پسند ڈر کے مارے ایک ہی جواب دے رہے تھے کہ ’’ سرکار آپ ہی جنگل کے بادشاہ ہیں ‘‘ میں گرجتا، چنگاڑتا ، دھاڑتا ہوا آگے بڑھتا رہا اپنے سوال کا جواب پاتا رہا، اتفاق دیکھیے کہ تھوڑا آگے چل کر میرا سامنا ایک مست اور پاگل ہاتھی سے ہوجاتا ہے میں نے حسب عادت طاقت اور اقتدار کے نشے میں ہاتھی سے بھی سوال داغ دیا کہ بتاؤ جنگل کا بادشاہ کون ہے اور یہاں پہ حکمرانی کا حق کس کو ہے ؟ہاتھی شاید نشے میں تھا چنانچہ اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ جنگل کے بادشاہ سے پنگا لینا کہاں کی دانشمندی ہے سو اس نے آؤ دیکھا نا تاؤمجھے اپنی سونڈ میں لپیٹا اور اٹھا کر فضا میں دو چار لپیٹے دیے ، زور سے گھمایا اور پوری طاقت سے زمین پہ پٹخ دیا ، میں کراہتے ہوئے کھال میں الجھی مٹی جھاڑتے کھسیاتے ہوئے بلبلاہٹ سے بولا ، بھائی میں نے تو ایسے ہی معلومات عامہ کے لیے سوال کیا تھا اگر آپ کو جواب نہیں آتا تھا تو مجھ سے پوچھ لیتے ، اس کے بعد مجھے بخوبی اندازہ ہوگیا کہ صرف کمزور اور جمہوریت پسند ہی مجھے بادشاہ سمجھتے ہیں باقیوں کی نظر میں میری کتنی عزت ہے سب آپ کے سامنے ہی ہے ،خیر یہ تلخ واقعہ ایسے ہی مجھے یاد آگیا سلسلہ وہیں جوڑتے ہیں میری چار ٹانگیں اور ایک دم ہوتی ہے ، کبھی کبھی ہم دم سے ایکدوسرے کو خفیہ اشارہ بھی کرتے ہیں ، جیسے گدھے کے سر پہ سینگ نہیں تو وہ اصلی گدھا ہوتا ہے اسی طرح دم شیر کی شناختی علامت ہوتی ہے۔یعنی جس کی دم نہیں ہوتی وہ شیر ہی نہیں ،ہماری بہت سی اقسام تھیں جن میں سے ایشیائی اور افریقی شیروں کو چھوڑ کر باقی تمام صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں ۔ ہماری لمبی لمبی زلفیں ہوتی ہیں جبکہ ہماری بیبیاں شیرنیاں باقاعدگی سے بال مونڈھتی ہیں ، یعنی جس کی مونچھیں ہوں وہ نر شیر اور جس کی مونچھیں نہ ہوں وہ مادہ ۔اس سے ایک بات اور بھی واضع ہوتی ہے کہ آج تک کچھ لوگ مونچھ اور بالوں والے کو ببر شیر اور جس کے بال اور مونچھیں نہ ہوں اس کوصرف شیر کہتے تھے جوکہ غلط نظریہ ہے۔بالوں والے کو مذکر شیر اور بے بال کلین شیو کو مونث شیر یعنی شیرنی کہا جاتا ہے ۔ لوگوں میں ایک بات مشہور ہے کہ بلی میری خالہ ہے اور مجھے زندگی کے تما م داؤ پیچ بلی نے سکھائے ہیں ،اس بات میں کوئی صداقت نہیں کیونکہ بلی نے مجھے زیادہ سے زیادہ چوہا پکڑنا ہی سکھانا تھا جو کہ میری خوراک ہی نہیں ۔خیرمیں نے جب دیکھا کہ میں تو بادشاہ ہوں اور سب استادیاں خالہ نے مجھے سکھا دی تو ایک دن نام نہاد خالہ سے پوچھا کہ خالہ جان آپ نے مجھے سب کچھ سکھا دیا؟ خالہ نے بولا ہا ں بیٹا سب کچھ سکھا دیا ، یہ سن کر میں نے میں نے خالہ کو پکڑنے کے لیے زور سے پنجہ مارا تو خالہ جست لگا کر درخت پر چڑھ گئی ،جب پورا زور لگانے پہ میں پہنچ نہیں سکا تو کھسیانا ہوکر خالہ سے پوچھا کہ آپ نے مجھے درخت پہ چڑھنا تو سکھایا ہی نہیں تو خالہ نے کہا ” میں ایک پتلی گلی اپنے لیے ہمیشہ چھوڑدیتی ہوں(یہ کسی فلم کا ڈائیلاگ ہے شاید) اس دن سے میں کھسیانا ہوکر کھمبا نوچنے کی تلاش میں نکل پڑا لیکن ترقی یافتہ ممالک میں تو بجلی کی تاروں کا نیٹ ورک زیر زمین ہے جس کی وجہ سے ہمیں کھمبے نظر ہی نہیں آتے اور نہ ہی نوچنے کا موقع ملتا ہے جبکہ کچھ ممالک میں کھمبوں کی بہتات ہوتی ہے لیکن ان میں کرنٹ بالکل بھی نہیں رہتی اور بھلا ہو شیرکا جس نے لوڈشیڈنگ کرکے ہماری باقی نسل کا مان رکھ لیا اب ہم جب چاہیں بلا خوف و خطر کھمبا نوچ سکتے ہیں ۔نہ کرنٹ لگنے کا ڈر اور نہ کوئی خوف و خطر ،قدرت کا انتقام دیکھو کہ ہماری خالہ آج بھی ادھر ادھر چھچھڑوں کی تلاش میں بھٹکتی پھرتی ہے اور ہم لوگ اس کے بھانجے عیاشی کرتے پھرتے ہیں ۔حقیقت ہے کہ جو بھی ہماری جیت کے لیے خود کو ہار دیتے ہیں جب ہم کسی مقام پر پہنچتے ہیں تو ان کی کوئی قدرہی نہیں رہتی۔یہ مکالمہ مکمل طور پہ غیر سیاسی ہے اگر کوئی قاری اس کو سیاست کی عینک سے دیکھتا ہے تو اس کا اپنا ذوق ہے کیونکہ شیر کی نظر میں سیاست کوئلوں کی دلالی ہے جس میں جتنی مرضی کوشش کر لیں زیادہ سے زیادہ آپ منہ بچا لیں گے لیکن آپ کے ہاتھ اور کپڑے پھر بھی کالے ہو جائیں گے ۔{jcomments on}
162