آصف شاہ‘نمائندہ پنڈی پوسٹ
وطن عزیز میں ان دنوں سیاست میں ایک بھونچال کی سی کیفیت ہے لمحہ بہ لمحہ کی بدلتی صورتحال نے عام عوام کو پریشان کر رکھا ہے اپنی دال روٹی کے لیے سارا دن محنت کر نیوالے عوام ان حلات سے تنگ ہیں ان کی پریشانی اتنی سی ہے کہ کل ان کی دیہاڑی لگی گی یا کچھ اور حالات ہونگے یہی سیاسی بھونچال حلقہ این اے باون سے تعلق رکھنے والے چوہدری نثار علی خان کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرتی نظر آتی ہے اس کا آغاز اس وقت شروع ہوا جب میاں نواز شریف بائی روڈ لاہور کے لیے گئے تو چوہدری نثار کے حلقہ سے ان کی گاڑی کس سپیڈ سے گزری اس پر کافی دفعہ لکھا جا چکا ہے اور چوہدری نثار علی خان کی سیاست میں یہ پہلا پتھر تھا جس نے ارتعاش پیدا کیا پھر کچھ دنوں بعد چوہدری نثار علی خان نے پریس کانفرنس کر کے اپنا لائحہ عمل دینے کا اعلان کیا لیکن دو بار ملتوی ہونے والی پریس کانفرنس کے بعد انہوں نے جو دل کے پھھولے پھوڑے اور ساتھ ہی سیاست اور سیٹ دونوں چھوڑنے کا علان کر دیا اور پریس کانفرنس کے چند لمحوں کے بعد انہوں نے سیاست چھوڑنے سے یو ٹرن لے لیا جس سے ان کی سیاست کو جھنجوڑ کر رکھ اس کے بعد انہوں نے ایک نجی چینل اور مختلف جلسے جلوسوں میں یہ برملا کہا کہ اس پارٹی کی ایک ایک اینٹ میں نے اور میاں نوازشریف نے اپنے ہاتھوں سے لگائی ہے اور اس کو چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا لیکن دوسری طرف وہ اسی پارٹی کے اندر رہ کر بعض اوقات اس کے مخالف کام کرتے نظر آتے ہیں اس وقت میاں نواز شریف پر کڑا وقت ہے اور پارٹی مریم نواز کے ساتھ کام کررہی ہے لیکن چوہدری نثار علی خان مریم کو اپنے بچوں سے مشابہ دے رہے ہیں اور اس کو پارٹی لیڈر تسلیم کرتے نظر نہیں آرہے ہیں اب ای نظر ڈالتے ہیں آمدہ الیکشن کے حوالہ سے چوہدری نثار علی خان نے دونوں حلقوں این اے52 اور این اے 53 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کر رکھا ہے اور اس پر انہوں نے ابھی سے کام شروع کر دیا ہے انہوں نے اپنی الیکشن کی مہم کا باقاعدہ آغاز اپنے گزشتہ دورے میں یوسی بشندوٹ سے کر دیا ہے اور اسی طرح این اے 53سے بھی باقاعدہ الیکشن مہم شروع کر دی ہے لیکن دوسری طرف سیاسی پنڈت اور سیاست پر نظر رکھنے والے اس حوالہ سے کچھ اور کہانی کو ہر جگہ بیان کرتے نظر آتے ہیں کہ اس مرتبہ مریم نوازنے الیکشنوں کو مکمل طور پر اپنی نگرانی میں کروانے کا پروگرام بنا رکھا ہے ا ور وہ ہی تمام امیدواروں کو ٹکٹس جاری کرے گی اور ان کا انٹرویوں بھی لے گی تو کیا چوہدری نثار علی خان اپنی الیکشن مہم کے لیے ن لیگ کے پلیٹ فارم سے ٹکٹ کے لیے اپلائی کریں گے اور اگر وہ اس پراسس کو نہیں مانتے تو کیا مریم نواز ان کو ٹکٹس جاری کرے گی اور وہ بھی دونوں حلقوں کے لیے؟ لیکن سیاسی پنڈت یہ دعوی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ چوہدری نثار علی خان پارٹی ٹکٹ کے لیے مریم نواز کو نہ ہی درخواست دیں گے اور نہ ہی وہ کسی ایسے پراسس سے گزریں گے جس سے ان کو مریم کے سامنے جانا پڑے اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اگر چوہدری نثار نے پارٹی ٹکٹ کے لیے اپلائی نہ کیا تو اب پارٹی ان کو ٹکٹ جاری نہیں کرے گی اور اس بار یہ بھی شنید کی جارہی ہے کہ ان کو دونوں حلقوں سے پارٹی الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دے گی تو کیا وہ پھر آزاد حثیت سے الیکش لڑیں گے اور اگر وہ دونوں حلقوں سے یہ ایک بڑا سوال ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑی شدت سے اپنا جواب مانگے گا اب حالات اس طرف سے پلٹا کھا چکے ہیں کہ اب بغیر مانگے ان کو ٹکٹ مل جائے گا اس کے علاوہ ایک بڑامسلہ جو اس وقت سامنے سر اٹھا کے کھڑا ہے وہ ہے نئی حلقہ بندیوں کا اور اس حوالہ سے تحصیل کلر سیداں مکمل طور پر یا اس کا بیشتر حصہ این اے 52 سے الگ ہو جاتا ہے اوراگر یہ کام ہو جاتا ہے اور تحصیل کلر سیداں کو این اے 50 میں ضم کر دیا جاتا ہے تو پھر ان کی سیاست کا کیا رخ ہو گا دوسری طرف پارٹی کے اندر اس وقت موجود ایک ٹولہ جو اس وقت میاں نواز شریف کے نزدیک ہے وہ ہر حال میں چاہتے ہیں کہ ان کی کسی نہ کسی طرح چوہدری نثار سے جان چھوٹ جائے اس وقت ا س حلقہ میں ایک مسلہ اور بھی سراٹھا کے کھڑاہے اور وہ ہے ختم نبوت کے حوالہ سے جس پر شروع سے لیکر آخر تک چوہدری نثار علی خان کا کوئی ردعمل سامنے نہ آیا لیکن دوسری طرف ان کے ایم پی اے قمرالسلام راجہ اس جگہ ان سے بازی لے گئے اور انہوں نے سوشل میڈیا پر شدید تنقید کرکے اور ایک عاشق رسول کا ثبوت دیا جس پر ان کو حلقہ کی عوام نے خراج تحسین پیش کیا چوہدری نثار علی خان شہباز شریف کے کافی نزدیک سمجھے جاتے ہیں ختم نبوت کے معاملہ پر شہباز شریف نے بھی سب سے پہلے ایک موقف دیا تھا لیکن تاحال اس حوالہ سے چوہدری نثار علی خان کا کوئی موقف اب تک اس معاملہ میں سامنے نہیں آسکا ہے اس حوالہ سے ان کے حلقہ میں ایک خاموش احتجاج موجود ہے جو الیکشن کے دنوں میں سامنے آسکتا ہے اس حلقہ میں اب ان کو جہاں تحریک انصاف، پیپلز پارٹی کے امیدواروں کا سامنا کرنا پڑے گا وہاں اس بار ان کے سامنے تحریک ختم نبوت کے امیدوار بھی ہو سکتا ہے جو خود تو شائید کامیاب نہ ہوسکے لیکن وہ چوہدی نثار علی خان کی سیاست کو بریک لگانے کا سبب ضرور بن سکتا ہے
91