339

گوہرِ قادریت ، امام بری

برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی ترویج و اشاعت زیادہ تر اولیاء کرام اور بزرگان دین کی مرہون منت ہے۔ پہلی صدی ہجری سے لے کر آج تک جتنے بھی صوفیائے کرام اور اولیاء اللہ آئے سب کے سب خالص توحید ربانی اور اتباع سنت نبویؐ پر کاربند رہے۔ اولیاء کرام نے انتہائی نامساعداور پرآشوب حالات میں لوگوں کو حق شناسی اور حق پرستی کی دعوت دی۔
سلطان السالکین قطب الاقطاب امام الفقراء حضرت شاہ عبداللطیف قادری المعروف امام بری سادات کے ایک معروف و معزز مشہدی خاندان کے چشم و چراغ ہیں ۔ آپ کا شجرہ نسب امام موسی کاظمؑ سے ہوتا ہوا شاہ سوارِ ولایت سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے۔پوٹھوہار ہزارہ اور آزاد کشمیر میں آپ کی دعوت و تبلیغ سے ایک بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا اور ہزاروں لوگ گناہوں سے تائب ہو گئے ۔آپ نے نہ صرف تبلیغِ اسلام کا فریضہ انجام دیا بلکہ دھیر کوٹ میں قبیلہ تہوڑ کے خلاف عملی جہاد میں حصہ لیا اور اسی جنگ میں شاہ دوہنگ مسلمان ہوئے اور آپ کی خلافت پائی۔شاہ دوہنگ آپ کے چار مشہور خلفاء میں سےایک ہیں۔جن کی مرقد آپ کے مزار کی شمال سمت نور پور شایاں میں ہے۔

تحقیق و تحریر : احمد بری

شجرہ طریقت کے لحاظ سے آپ قادری ہیں۔
آپ کی بیعتِ طریقت کے بارے میں دو مضبوط روایات موجود ہیں۔ ہر دو حوالہ جات سے حضرت شاہ عبداللطیف امام بری کا تعلق سلسلہ قادریہ سے ہی ثابت ہوتا ہے۔ اصلاح تصوف میں سلسلہ قادریہ ایسا راہِ سلوک ہے جو حضور غوث الثقلین سید عبدالقادر جیلانی حسنی حسینی تک پہنچے اور پھر ان سے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ تک منتہی ہو۔ حضرت امام بری بھی قادری تھے اور آپ کا سلسلہ طریقت قادریہ تھا۔
پہلی روایت کے مطابق آپ حضرت شاہ امیر بالا پیر قادری حجرہ شاہ مقیم کے مرید تھے۔جو کہ پیران پیر غوث اعظم سید عبدالقادر جیلانی کے پوتے کی اولاد میں سے ہیں۔حضرت شاہ امیر بالا پیر کے والد محترم حضرت مقیم محکم الدین ہجروی کی فارسی تصنیف دارالعجائب کااردو ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔ حضرت مقیم محکم الدین ہجروی نے 1690ء میں

وصال فرمایا آپ قادری سلسلہ سے تھے جیسا کہ آپ کی تصنیف سے ثابت ہوتا ہے۔

اس روایت کا قدیم ترین ماخذ حضرت میاں محمد بخش کی کتاب تذکرہ مقیمی ہے جس کا سن تصنیف 1868 ہے اور اس کا اردو ترجمہ بوستان قلندری کے نام سے جہلم سے 1920 میں شائع ہوا۔ اس تصنیف کے مطابق حضرت میاں محمد بخش ،ان کے مرشد پیر شاہ غازی دمڑی والے اور حضرت شاہ عبداللطیف امام بری کا سلسلہ طریقت قادری تحریر ہے۔
اس روایت کا دوسرا اہم ترین ماخذ حضرت شاہ عبداللطیف امام ری کے مقبول خلیفہ شیخ درویش محمد قادری ہیں جنہوں نے دینی اور روحانی فیض کی ترویج ہندوستان میں جاری رکھی اس شاخ میں نامور اولیاء گزرے جن شہرہ آفاق عالم باشریعت غوث علی شاہ قادری قلندری پانی پتی کی تعلیمات و ملفوظات پر مشتمل دو کتابیں تذکرہِ غوثیہ اور تعلیمِ غوثیہ سید گل حسن شاہ نے لکھیں۔

غوث علی شاہ قادری کے حالات زندگی تحریر کرتے ہوئے ان کا شجرہ طریقت بھی مرتب کیا گیا اور انہیں قادری قلندری قرار دیا گیا ۔ آپ کا شجرہ طریقت محمد امیر بالا پیر سے جوڑا گیا۔ اس طرح شاہ عبداللطیف بری امام سے جن بزرگان دین نے فیض حاصل کیا وہ خود کو اور حضرت بری امام کو قادری لکھتے رہے۔
اسی روایت کا ایک اور مشہور حوالہ حافظ امداد حسین کی کتاب دفترِ حقیقت ہے۔ حافظ امداد حسین نے 1890 میں دفترِ حقیقت میں غوث علی شاہ پانی پتی کی حالات زندگی تحریر کیے اور سلسلہ طریقت قادریہ کا قلمبند کیا۔ نیز محمد امیر بالا پیر کو حضرت امام بری کا مرشد لکھا۔

حضرت ٹکا سلطان قادری اہم تاریخی حوالہ ہیں۔آپ نے 1930 میں وصال فرمایا ۔آپ کے حالات و واقعات اور کتب اسی روایت کے بارے میں ہیں۔
حضرت شاہ عبداللطیف امام بری نے حضرت ٹکا سلطان قادری کو بیعت سروری سے سرفراز کیا۔ قبل ازیں حضرت میرن جتی نے ٹکا سرکار سے فرمایا: شریعت چاہتے ہو تو بری سرکار کے پاس جاؤ ۔ٹکا سلطان قادری نے کثیر تعداد میں غیر مسلموں کو اسلام کی روشنی سے فیضیاب کیا آپ کا عارفانہ کلام عاجز اور کلام معرفت کے عنوان سے شائع ہوئے۔ سائیں ٹکا قادری نے منظوم شجرہ قادریہ تحریر کیا اور شاہ عبداللطیف بری امام سرکار کو مرشد قرار دیا

۔
ٹکا سلطان قادری سرکار کے خلیفہ اعظم قاضی محمد اشرف قادری نے سیفِ قادری، سوز و گداز اور آنسو سمیت 35 کتب تحریر کیں۔ ٹکا سلطان قادری کے کلام اور شجرہ طریقت میں قادریہ سلسلہ ہی مذکور ہے۔ اور شاہ امیر بالا پیر کو حضرت امام بری کا مرشد لکھا گیا۔ٹکا سلطان قادری کا نمونہ کلام پیش ہے؛

کیسا شاہ لطیف بری دا ہویا نیک ارادہ
سید شاہ محمود دا جایا سوہنا نیک شہزادہ
کیتا ٹولہ کھڑا جس نے قادریاں دا سارا
ٹولے تھیں اے ٹولہ ہویا رحمت والا بھارا
یعنی قادریوں کا یہ سارا گروہ حضرت امام بری نے کھڑا کیا ہے اور قادریوں کا یہ ٹولہ رحمتوں بھرا ہے۔

دوسری روایت کے کثیر مستند حوالہ جات سے پتہ چلتا ہے کہ سید جمال اللہ حیات الامیر حضرت شاہ عبداللطیف امام بری سرکار کے مرشد ہیں جو سید نصر کے بھائی ہیں اور محبوب سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی کے پوتے ہیں۔
حضرت جمال اللہ ایات الامیر کی ولادت 522 ہجری بمطابق 1128 عیسوی میں ہوئی۔مفتی غلام سرور لاہوری خزینۃ الاصفیہ میں شاہ ابو المعالی رحمتہ اللہ علیہ کے حوالہ سے تحریر کرتے ہیں کہ یہ جمال اللہ شکل و صورت میں حضرت غوث الاعظم کے مشابہ تھے اور بہت خوبصورت تھے اور یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت غوث پاک نے ان کے حق میں حیات جاوداں کی دعا فرمائی جو خداوند کے ہاں منظور ہوئی ۔ وہ ابھی تک زندہ ہیں اور حیات المیر کے نام سے مشہور ہیں۔
آثار الکریم عیدگاہ شریف سے سلسلہ نقشبندیہ کی شائع ہونے والی ایک اہم کتاب ہے جس میں حضرت شاہ عبداللطیف امام بری سرکار کے چہیتے خلیفہ حضرت شاہ حسین قادری کے حالات تحریر کیے گئے ہیں
حضرت شاہ عبداللطیف امام بری کے چہیتے خلیفہ، شاہ حسین مغل شہزادے تھےاور ان کا نسب نویں پشت میں شہنشاہ بابر سے ملتا ہے۔ بری سرکار کے حکم کے مطابق زائرین شاہ حسین کی مرقد پر دو دفعہ فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔
شاہ حسین کے بھتیجے اللہ رکھا صاحب کی شادی امام بری سرکار نے اپنےدوست محمد دین کی صاحبزادی سے طے کی۔انہی کے صاحبزادے شاہ درگاہی صوفی با کمال تھے۔

اور حافظ جی عبدالکریم قدس سرہ عید گاہ شریف کے دادا ہیں۔ درگاہ عید گاہ شریف کے مطابق حضرت امام بری قادری ہیں۔
حضرت حیات المیر سے کسب فیض اور بیعت کے بارے روایت کے حوالے ملاحظہ ہوں؛
پادری جان اے سبحان کی کتاب صوفی ازم 1960 میں لکھنو سے شائع ہوئی ۔اس کتاب میں حضرت حیات الامیر کو حضرت شاہ عبداللطیف امام بری سرکار کا مرشد قرار دیا گیا۔

آغا گوہرعلی شاہ حضرت امام بری سرکار کے محبان میں ایک نمایاں شخصیت ہیں۔ آپ پشاور سے لائے جانے والی ڈالی کے نگران تھے۔ انہوں نے 1966 میں شجرہ قادریہ قلندریہ مرتب کیا اور پیشاور سے شائع کرایا۔ اس شجرہ قادریہ قلندریہ میں حضرت شاہ عبداللطیف امام بری کو قادری اور حضرت حیات المیر کا خلیفہ بتایا گیا۔
ایچ اے روز برٹش انڈین سول سروس کے ایک اہم افیسر تھے انہوں نے اپنی کتاب آ گلازری اف ٹرائبز 1919 میں شائع کی جس میں انڈیا میں ہونے والی مردم شماریوں کا تجزیہ کیا گیا اور لکھا گیا کہ حضرت حیات المیر امام بری سرکار کے مرشد ہیں۔

مولانا سید محمد قاسم شاہ راجوری کاظمی قادری نے قیام پاکستان کے بعد حضرت امام بری سرکار پر تحقیق کو نئی جہت دی ۔قاسم شاہ نور پور شاہاں کی تاریخی جامعہ مسجد کے خطیب امام اور ایک معتبر شخصیت تھے۔ مولانا قاسم شاہ نے حضرت شاہ عبدا للطیف امام بری سرکار کی حیات و تعلیمات کے بارے میں تحقیقی اسلوب سے لکھنا شروع کیا۔ آپ نے درجن بھر کتابیں حضرت امام بری سرکار کی حیات و تعلیمات کے بارے میں تحریر کیں۔ اور اپ نے حضرت سخی حیات المیر کو بری امام کا مرشد قرار دیا۔

بابا مستانے شاہ مشہدی نے ایک کتابچہ وظائف کتاب کے نام سے ترتیب دیا اس کتابچے میں حضرت شاہ عبداللطیف امام بری سرکار کے مرشد کا نام حیات الامیر بتایا گیا اور ان کا سلسلہ طریقت قادریہ لکھا گیا۔

غلام حسین شاہ بخاری کا تعلق نورپور شاہاں سے تھا آپ 1894 میں فوت ہوئے۔ آپ نے ایک رسالہ کرامات شاہ لطیف بری تحریر کیا اس رسالے میں حضرت سخی حیات المیر کو حضرت شاہ عبداللطیف امام بری سرکار کا مرشد ہی لکھا گیا ہے اور ان کی کرامات کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔

شیخ براسوی محمد اکرم صابری نے اپنی کتاب اقتباس الانوار میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے پوتے جمال اللہ حیات الامیر کا ذکر کیا ہے جن کی شباہت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی سے بہت زیادہ تھی ۔
رفیق جاوید روزنامہ شہباز پشاور کے چیف ایڈیٹر تھے ان کی کتاب حضرت امام بر 1955 میں شائع ہوئی جس میں انہوں نے حضرت سخی حیات المیر کو شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ کا پوتا اور حضرت شاہ عبدالطیف امام بری سرکار کا مرشد لکھا ہے۔

مفتی غلام سرور لاہوری کی تصنیف خزینۃ الاصفیہ کا شمار اہم ترین تاریخی مآخذ میں ہوتا ہے جو 1284 ہجری میں لکھی گئی۔
مفتی غلام سرور لاہوری نے جمال اللہ حیات الامیر کو حضرت شاہ عبداللطیف امام بری سرکار کا مرشد لکھا ہے اور شیخ بہلول شاہ قادری کو حضرت شاہ عبدالطیف بابری سرکار کا خلیفہ قرار دیا ہے۔

شیخ ابو المعالی اپنی تصنیف تحفۃ القادریہ میں لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمت اللہ کے صاحبزادے شیخ تاج الدین عبدالرزاق کے پانچ فرزند تھے جن میں حضرت شیخ جمال اللہ بھی شامل ہیں جو اپنی شکل و صورت حسن و جمال میں غوث اعظم سے بہت مشابہت رکھتے تھے

منشی شہامت علی نے 1838 میں حسن ابدال کا دورہ کیا اور اپنی کتاب دی سکس اینڈ دی افغانز میں مغل شہنشاہ جہانگیر اور حضرت حیات الامیر کے تعلق کو تحریر کیا۔یہ کتاب لندن سے شائع ہوی۔

سید غلام رسول شاہ خاکی نے اپنی تحریر کشکول قلندریہ میں حضرت شاہ عبداللطیف بری امام سرکار کو حضرت سخی حیات المیر زندہ پیر کا خلیفہ قرار دیا اور قادری لکھا۔

مفتی غلام سرور لاہوری نے اپنی دوسری تصنیف حدیقہ الاولیاء میں بھی حضرت شاہ عبداللطیف امام بری سرکار کے حالات قلم بند کیے اور انہیں قادری سلسلہ سے منسوب قرار دیا اور حضرت حیات الامیر کا خلیفہ قرار دیا

محمد دین کلیم نے مشائخ قادریہ میں حضرت شاہ عبداللطیف کو قادری لکھا اور ان کے نامور خلیفہ شیخ بہلول دریائی قادری کے حالات بھی قلم بند کیے۔
حضرت پیر مہر علی شاہ رح کی سوانح حیات مہرِ منیر میں حضرت جمال اللہ حیات الامیر کو غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی کے صاحبزادے شیخ عبدالرزاق کی اولاد لکھا گیا ہے۔ جن کا سلسلہ قادریہ رزاقیہ ہے اور شاہ عبداللطیف امام بری کا حیات الامیر سے کسب فیض مذکور ہے۔

منظور الحق صدیقی نے اپنی کتاب شاہ لطیف بری میں دونوں روایات کا زکر کیا دستور العمل خانقاہ شاہ لطیف 1859 تحریر کیا ہے جس کی 11 دفعات ہیں اور جس میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ خانقاہ کے نظام کو طالبان بری کس طرح سے چلائیں گے ۔ منظور الحق صدیقی نے لکھا ہے کہ؛
” حضرات قادریہ ہر مہینے کی 11 تاریخ کو پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی کا فاتحہ دلاتے ہیں اسی تعلق سے اس دستور العمل میں 11 دفعات ہیں اور اس پر فقرائے بری امام کی چاروں شاخوں کے 11 سر بر آوردہ حضرات کے دستخط موجود ہیں۔”
جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام بری سرکار سے چلنے والا فیض، قادریہ فیض ہی تھا ۔
1960 میں محکمہ اوقاف نے خانقاہ شریف کا انتظام سنبھالا ماقبل طالبان بری کے چار گروہ یہ فرائض سر انجام دیتے تھے۔1780ء میں ان طالبی گروہوں نے انتظامی امورتحریری شکل میں لانا شروع کر دیے۔ ان تحریری سلسلوں میں واضح طور پر تمام گروہ شاخوں یا پتیوں نے خود کو قادری لکھا۔اور ان تحریروں میں خود کو “سلسلہ وار طالبی طریقہ قادریہ” لکھا گیا ہے۔مصنف غلام شبیرھاشمی کا تعلق بذات خود دوہنگ شاہی طالبی سلسلہ سے ہے۔

1960 میں خانقاہ شریف کے انتظامات محکمہ اوقاف کے سپرد کیے گئے اور شعبہ اوقاف وزارت مذہبی امور نے صدارتی مشاورتی کمیٹی سے مل کر شجرہ طریقت کی تحقیق کی اسے درست پایا اور قادری لکھا۔
سائیں نانگا میر علی قادری ہلی والے کا شمار حضرت شاہ عبداللطیف امام بری کے خلفاء میں ہوتا ہے اپ کا مزار امام بری کے مزار کے احاطے میں جنوب مغرب میں ایک بلند مقام پر ہے جہاں پر اور بھی قبریں موجود ہیں ۔
مزار امام بری سے مغرب کی جانب تقریبا ایک فرلانگ کے فاصلہ پر حضرت امام بری کے پیر و مرشد حضرت سخی حیات المیر کی ایک خوبصورت بیٹھک ہے اس کو چلا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک گنبد نما شکل میں تعمیر کی گئی ہے اور اس کے ارد گرد ایک چار دیواری یے۔ اسی مقام کے قریب ایک پتھر پرحضرت بری امام نے حضرت حیات الامیر کی بیعت حاصل کی تھی وہ پتھر بھی بوڑھ کے ایک بہت بڑے درخت کے نیچے آج تک محفوظ ہے۔
حضرت حیات الامیر کی لا تعداد بیٹھکیں پوٹھوار ہزارہ اورآذادکشمیر میں موجود ہیں ۔ان بیٹھکوں میں سے کسی بھی بیٹھک کا وزٹ کیا جائے اور خدمت گاروں سے معلومات کی جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت حیات المیر ہی بری سرکار کے مرشد ہیں
حضرت حسن قادری پشاوری کا بری سرکار سے ملاقات کرنا بعد ازاں شاہ محمد غوث قادری کا ملاقات کرنا نیز پشاور سے صدیوں تک اس قادری گھرانے سے ڈالی کا آنا اور دربار سے مسلسل ڈالی کا فرمان جاری ہونا، قادری تعلق کی دلیل کو مضبوط کرتا ہے۔
نورپور شاہاں کے قریب رتہ ہوتر میں جناب غوث اعظم سید عبد القادر جیلانی کی اولاد سے صحیح النسب حسنی حسینی گیلانی سادات کا ایک گھرانہ موجود ہے جو چھ نسلوں سے یہیں پر آباد ہے اور شاہ محمد غوث قادری کی اولاد میں سے ہیں۔ یہ خاندان دربار امام بری کے حصہ داروں میں شامل ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر اعظم چوہدری جن کا تعلق قائد اعظم یونیورسٹی سے ہے وہ اپنے مقالے میں یوں رقم طراز ہیں؛ Then there were also Sufis”
who like Bari Imam ( Qadri/Qalandri) followed two or even more silsalas at the same time۔۔۔۔۔Bari lmam’s family as the saint himself also was a kazmi syed and followers of Qadria Order.”
مفتی غلام سرور لاہوری نے خزینۃ الاصفیہ میں جہاں حضرت جمال اللہ حیات المیر کا ذکر کیا ہے وہاں ایک تیسری روایت بھی بیان کی ہے کہ حضرت شاہ عبداللطیف امام بری نے شیخ نصیر الدین قریشی سے بھی کسب فیض کیا جن کا تعلق سہروردیہ سلسلہ سے ہے البتہ دیگرماخذ کتب میں یہ روایت مذکور نہیں۔

حضرت شاہ عبداللطیف امام بری نے واضح طور پر دو قادری بزرگوں سے روحانی فیض حاصل کیا ۔ آپ کے ایک مرشد حضرت شاہ امیر بالا پیر قادری بن حضرت مقیم محکم الدین حجروی ہیں۔ جبکہ مولانا محمد قاسم راجوری رفیق جاوید پادری جان سبحان اور شاہ ابوالمعا لی جیسے دیگر ماخذ سے آپ کے دوسرے مرشد جمال اللہ حیات المیر ہی ہیں۔ جنہوں نے آپ کو امامِ بر کا خطاب دیا اور جن کی بیٹھک آپ کے مزار کے قریب نور پور شاہاں میں موجود ہے
حضرت حیات المیر سے کسب فیض کرنے والے بزرگوں کی تعداد کثیر ہے جن میں حضرت شاہ محمد مقیم اور حضرت بہلول دریائی قادری شامل ہیں۔صاحبان حال جانتے ہیں یہ کسبِ فیض تا حال جاری و ساری ہے۔
پیکر آگہی امام بری
مظہر دلبری امام بری
لمعہ جلوہ فیوض نبیؐ
پور مولا علی امام بری

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں