155

سعید قریشی‘دکھی دل مسکراتا چہرہ

محمد سعید قریشی سے میری دوستی ایک سال پہلے ہوئی تھی مگر یہ شخص میرے زہن میں ایسے رہتا ہے کہ جیسے دس سال کی رفاقت ہو اس سے۔ یہ جب بھی ملتا ہے

تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی خوشی اس کا استقبال کر رہی ہو۔ ہمیشہ مسکراتا ہوا دکھائی دیتا ہے مگر اس کے جذبات کو اگر کوئی سمجھ پائے تو وہ ساری رات سو نہ پائے گا۔جس شخص نے زندگی میں دولت ہونے کے باوجود دکھ ہی دکھ دیکھے ہوں وہ باہر سے کیسے مسکراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ شخص اللہ کے فیصلے پر مطمئن ترین دکھائی دیتا ہے مگر یاد رکھیں کہ جب کوئی دکھ یا تکلیف کسی بھی شخص پر آتی ہے

تو وہ گنہگار انسان ہو یا کوئی اللہ کا پرہیزگار بندہ ہو وہ پریشانی میں روتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ صحابہء کرام اور انبیاء کے ہاں جب کوئی اللہ کو پیارا ہو جاتا تھا تو وہ بھی روتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ جب میں سعید قریشی کو دیکھتا تو میں محسوس کرتا ہوں کہ گھر پر جب یہ اکیلا ہوتا ہوگا تو اللہ کے سامنے گڑگڑا کر روتا ہوگا کیونکہ اللہ کے سامنے جو آنسوبہاتا ہے اللہ اسکی ساری دعائیں قبول کر لیا کرتا ہے

۔ اب آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ اس شخص کو کیا پریشانی یے۔ تو انکی ایک پریشانی نہیں یہ تین مشکل ترین مشکلات کا سامنا ہر روز کرتا ہے۔ اور یہ پریشانیاں ملاحظہ فرمائیں محمد سعید قریشی جب نیا گھر بنوا رہے تھے تو انکا ساڑھے تین برس کا بیٹا پانی کی ٹینکی میں گر گیا۔ سارے گھر کی تلاشی لی مگر مل نہ پایا۔ جب وہ اللہ کے پاس چلا گیا یعنی پانی میں ڈوب کر مر گیا تو معلوم ہوا کہ بچہ تو پانی کی ٹینکی
میں مرا پڑا ہے۔ اللہ اکبر اس وقت ماں باپ پر کیا بیتی ہو گی۔ سب اس پیرائے میں خود کو لے جائیں اور محسوس کریں کہ والدین کی کیا حالت زار ہو گی۔

ایسے موقع پر گھر کی ساری دیواریں اور چھتیں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں اور یہ سب سعید قریشی اور انکی زوجہ کے ساتھ ہوا۔ اللہ اللہ کر کے جب سکون آنا شروع ہوا مگر یاد رکھیں سکون کبھی آ ہی نہیں سکتا بس اللہ آپ کو ادھر سے ادھر کر دیتا ہے مگر ساری رات بے سکونی جھنجوڑٹی رہتی ہے۔ پھر یہ بڑے بیٹے کے ساتھ زندگی گذارنے لگے اور اللہ کا شکر ادا کرنے لگے۔ مگر جو اللہ کو معلوم ہوتا ہے

وہ ہم نہیں جان سکتے۔ اب انکی زندگی میں ایک اور تلخ ترین لمحہ آ گیا اور یہ سن کر آپ بھی میری طرح روتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ سعید قریشی کا 26 برس کا آخری بیٹا فوڈ پوائزننگ یا ہارٹ اٹیک کی وجہ سے اچانک یہ دنیا چھوڑ گیا۔ میرے مالک تیرے ہر کام میں مصلحت ہے

۔ اللہ اکبر پھر کیا ہوا کہ زندگی کا ہر موڑ بدلتا چلا گیا اور یہ میاں بیوی دو بیٹیوں کے بغیر زندگی گذارنے لگے۔ جب دونوں بیٹے اللہ پاک کے حصور پیش ہو گئے تو پھر انکی والدہ بے شمار بیماریوں میں مبتلا ہوتی گئی۔ بچوں کے جانے کے بعد دن بدن کمزور ہوتی گئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس ماں کو کینسر کی بیماری ہے

جو آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ اس وقت انکا کوئی علاج نہیں ہو سکتا تھا۔ دو بیٹوں کے بعد انکی والدہ بھی اپنے بیٹوں کے پاس چلی گئی۔ جب دونوں بیٹوں نے ماں کو دیکھا ہو گا تو کتنے خوش ہوئے ہونگے۔ وہ تینوں تو خوش ہوئے ہوں گے مگر سعید قریشی کا کیا حال ہو رہا ہے یہ کوئی ان سے پوچھے۔ باہر سے مسکراتا ہوا اور اندر سے ریزہ ریزہ دکھائی دیتا ہے۔ مگر اس کو اپنے ربّ کے فیصلوں پر مکمل یقین ہے کیونکہ میرا اللہ جو بھی فیصلہ کرتا ہے بہتر سے بہترین انداز کرتا ہے۔ مگر انسان تو خطا کا پتلا ہے

وہ تو خاموش ہو کر بھی مسکراتا ہوا مگر اندر سے پریشان حال ہوتا ہے۔ آپ اس وقت گھر کے اوپر والے پورشن میں رہتے ہیں اور نیچے آپ کی بیٹی رہتی ہے اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ۔ دوسری بیٹی مراکش میں ہے اور اسکے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ مگر سوچنے کی بات ہے کہ یہ اکیلا شخص دن کو تو کاروبار کرتا ہے مگر رات کو خود کو کیسے سنبھالتا ہوگا۔ بحر حال اللہ دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی آزماتا ہے

۔ بات پھر وہی ہے کہ اللہ کے ہر کام میں مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ میں جب بھی سعید قریشی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے عجیب سا احساس ہوتا ہے کہ یہ بندہ جب رات کو پانی پینے کے لئے اٹھتا ہوگا تو سامنے چھوٹا بیٹا، دائیں جانب بڑا بیٹا اور بائیں جانب اپنی زوجہ محترمہ کواپنی آنکھوں سے دیکھتا ہو گا۔ مجھے لگتا کہ ہر روز بیٹے اور بیگم یعنی بیٹوں کی ماں سے ملاقات کرتا ہو گا۔ بس یہ بولتا ہوگا مگر وہ وہ تینوں خاموشی سے اسے دیکھتے ہوں گے اور سنتے بھی ہونگے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ میرا مالک اس جہان کو بنانے والا اور اشرف المخلوقات کا مالک محمد سعید قریشی کو سکون نصیب فرمائے اور تحمل مزاجی سے اس دنیا میں رہنا نصیب کرے آمین

۔ اللہ پاک انکے دو بیٹوں اور انکی جدائی میں کینسر کی بیماری میں مبتلا ہو کر اللہ کے پاس جانے والی والدہ کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین اور سعید قریشی کو یہ تین صدمے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔جب میں محمد سعید قریشی کے چہرے کو دیکھتا ہوں تو مجھے انکے ماتھے پر یہ الفاظ دکھائی دیتے ہیں۔
میری تمنا تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا کہ بھول گیا سوال بھی
اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں