313

پروفیسر راجا امجد منہاس کی شخصیت

میں اور پروفیسر راجا امجد منہاس اکیلے بیٹھے ہوئے تھے اور امجد صاحب نے اپنے والد گرامی کا زکر کیا تو میں نے انکی آنکھوں میں نمی محسوس کی۔ جب وہ اپنے والد کا زکر کر رہے تھے تو میں نے محسوس کیا کہ میرے بھائی کو والد صاحب سے بہت لگاؤ تھا اور ہے۔ ہم لکھاری بھی بڑے عجیب ہوتے ہیں اگر کوئی دہاڑیں مار کر بھی رو رہا ہو تو ہم اسے پہچان لیتے ہیں کہ یہ دکھلاوا کر رہا ہے یا واقعی اندر سے ریزہ ریزہ ہے۔ اس دن میں نے امجد بھائی کو اندر سے روتے ہوئے پایا اور انکے آنسو تیز دھار ندی کی مانند باہر آنے کے بجائے اندر سیلاب پرپا کر رہے تھے۔ انکے والد گرامی بھی بہت معروف استاد تھے۔ جس بات پر امجد صاحب دل ہار
گے تھے وہ بات یہ تھی۔”کہنے لگے کہ میرے والد صاحب نے مجھے بتایا کہ قائد اعظم نے

جب فنڈ ریزنگ کی تو میرے دادا صاحب نے اپنی جیب سے دس روپے نکال کر اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔”بس یہ بات کہنے کے بعد ان میں سکت نہ رہی۔ اور باہر سے مسکراہٹ اور اندر سے ہچکچاہٹ میں نے محسوس کر لی اور میں نے اپنی گردن نیچے کر دی۔ دراصل میں بھی اس وقت آنسوؤں کی ندیاں بہا رہا تھا مگر پروفیسر صاحب کو محسوس نہ ہونے دیا۔۔ پروفیسر راجا امجد منہاس یوسی تراہیہ کے گاؤں سوہاوہ تحصیل راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور پھر تعلیم کے میدان میں ایسے گے کہ والدین قبیلے اور برادری کے سر فخر سے بلند کر دیے۔ 6 بہن بھائیوں میں سے چوتھے نمبر پر ہیں۔ اور پانچ بہن بھائی پبلک سروس کمیشن کے زریعے گورنمنٹ کے مختلف اداروں میں بھرتی ہوئے اور راولپنڈی اور پوٹھوہار کا نام روشن کیا۔ یہ دھیمے لہجے کا بندہ چھوٹے بڑے غریب امیر اور بیواؤں کی اتنی قدر کرتا ہے کہ دیکھتے والے دھنگ رہ جاتے ہیں۔ پروفیسر صاحب نے پانچویں جماعت سے قبل قرآن پاک حفظ کر لیا تھا اور اتنی عمر میں یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ بے شمار کالجز اور یونیورسٹیوں میں درس دیتے رہے ہیں۔ آپ بلوچستان یونیورسٹی،قائد اعظم یونیورسٹی،علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور ایبٹ آباد یونیورسٹی کے بے شمار پروگرامز کے فارغ التحصیل ہیں۔ سینٹ میری،فوجی فاؤنڈیشن اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں پڑھاتے رہے ہیں۔ اور آج کل فیڈرل گورنمنٹ کے ماڈل کالج اسلام آباد میں ریاضی کے پروفیسر ہیں۔ یاد رہے کہ پوٹھوہار نامہ اور تاریخ پکھڑال منہاس راجپوت انکی ہی لکھی ہوئی کتب ہیں جو پاکستان اور پاکستان سے باہر روشن ستاروں کی مانند جگمگ جگمگ کر رہی ہیں۔ آپ اپنی برادری اور قبیلے سے بہت پیار کرتے ہیں۔ 1996

سے تعلیم کے شعبے سے منسلک ہیں۔ اکثر میرے ساتھ مختلف ٹی وی چینلز پر گفتگو کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ آپ سب
نے اکثر میرے بھائی کو ریڈیو پاکستان ٹی وی چینلز اور بے شمار چینلز پر علم و ادب، اور سماجی حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے دیکھا ہوگا۔ پکھڑال منہاس راجپوت فیڈریشن میں اپنا کردار ایسے ادا کر رہے ہیں کہ جیسے کوئی عہدے داران کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے جیسے میرے پاس نہیں ہے۔ آپ راجا عارف منہاس ساگری راولپنڈی کے ثانی ہیں اور مرتے دم تک رہیں گے انشاء اللہ۔ آپ نے راجہ عارف منہاس سے علم و تاریخ کا فیض پایا پھر آج تک انہی کے قدم پر قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ آپ کی مقبولیت کا سبب پوٹھوہار نامہ اور تاریخ پکھڑال منہاس راجپوت کی تصانیف ہیں۔

2010 میں آپ کو انجمن پوٹھوہاری ادب و ثقافت کی جانب سے تمغہء خدمات سے نوازا گیا۔ آپ کے دل و دماغ میں کلچر، تہذیب ثقافت اور تاریخ گلگلا رہی ہوتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ سرپرست اعلیٰ پکھڑال منہاس راجپوت فیڈریشن جناب چوہدری راسب خان پکھڑال منہاس کے دست بازو ہیں۔ پروفیسر راجا امجد منہاس صاحب تحریر، گفتگو اور دلائل میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ ان سب کے باوجود آپ اپنے قبیلے کے ساتھ ساتھ دوسرے قبیلوں کو بھی اتنی ہی عزت دیتے ہیں جتنی عزت اپنی برادری کو دیتے ہیں۔ بڑوں کے ساتھ بڑے اور چھوٹوں کے ساتھ چھوٹے بن کر ماحول کو خوش گوار بنا دیتے ہیں۔ انکی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ ہے۔تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
دل بے خبر میرے پاس آ اسے بھول جا اسے بھول جا
وہ جو مل گیا اسے پاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
اسے بھول جا۔ میری ایک کتاب جس میں میری شخصیت پر ایم فل بھی ہو چکا ہے۔ پروفیسر صاحب نے بہت کچھ لکھا۔ ان میں سے چند جملے ملاحظہ فرمائیں۔’شاہد جمیل منہاس صاحب ایک کالج کے پرنسپل اور پیشے کے اعتبار سے پروفیسر اور علاقے کے لحاظ سے پوٹھوہاری اور قوم کے راجپوت ہیں۔ اس لیے آپ کے کالم میں کبھی کبھی استادی پوٹھوہاری اور راجپوتی سختی بھی چھا جاتی ہے مگر
آپ کی سختی اور تنقید گھوم پھر کر تلقین اور تاکید کی طرف چلی جاتی ہے

۔ جس کے قاری پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ میں دعا گو ہوں کہ اللہ انہیں مزید زور قلم اور توفیق اشاعت دے تاکہ ان جیسے منجھے ہوےء کالم نگار سے ہم مستفید ہوتے رہیں
جاتے ہوئے بس میں اتنا کہوں گا کہ پروفیسر امجد منہاس جیسے نرم مزاج اور برے وقتوں میں سینہ تان کر کھڑے ہونے والے اس بھائی کو مکمل صحت یابی اور ایسے ہی مثبت رکھے۔ کالم ختم کرنے سے پہلے ایک شعر انکی عاجزی پر اور دوسرا انکی سختی پر لکھ رہا ہوں۔
پہلا شعر عاجزی پر
جو اعلی ظرف ہوتے ہیں ہمیشہ جھک کے ملتے ہیں
سراحی سر نگوں ہو کر بھرا کرتی ہے پیمانہ
او دوسرا شعر مشکل وقت میں سینہ تان کر اور گردن اوپر کرنے پر
ازل سے سر بلندی رچ گئی ہے اپنی فطرت میں
ہمیں بس ٹوٹنا آتا ہے جھک جانا نہیں آتا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں