286

یادرفتگان

کالج کی دوستی‘ہمیشہ ساتھ نبھائے

(یاد ماضی عذاب ہے یا رب) یادِرفتگان صدام حسین کیانی باکردار شخصیت
آنکھیں تب کھلیں گی
جب آنکھیں بند ہوں گی
راجہ صدام حسین کیانی ڈھوک مدد خان کا رہائشی تھا۔ عمر میں چھوٹا مگر کردار میں بہت بڑا تھا۔ جس دن وہ اچانک فوت ہوا تو میں اس وقت جہلم میں تھا اور جنازے پر نہ پہنچ سکا۔ میری شادی کا دوست تیمور کیانی اور شعیب کیانی کا کزن تھا۔ میں نے فون پر تیمور سے بات کی مگر تیمور نے دو جملے بولے اور ہچکیاں لے کر رونا شروع ہو گیا۔ میں سمجھ گیا کہ تیمور کا ایک بازو آج تیمور سے الگ ہو گیا۔ میں نے ساری زندگی تیمور کو ایسے بکھرتا ہوا نہیں دیکھا کہ جیسے اس دن اسکے جسم کے ٹکڑے الگ الگ ہوتے دکھائی دیے۔ میں نے صبح تیمور کو فون کیا

کہ میں آ رہا ہوں اور میں صدام حسین کی والدہ اور سیاسی اور سماجی شخصیت راجہ زبیر کیانی کی بہن سے ملوں گا۔ تیمور نے کہا جلدی آو میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ لہذا میں اور تیمور پہلے صدام کی والدہ،تیمور کی خالہ اور زبیر کیانی کی بہن سے ملے۔ اس دن مجھے محسوس ہوا

کہ جوان اولاد والدین کی کمر توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ پہلے تو صدام کی والدہ خاموش رہیں مگر جب میری آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار ندی کی مانند نکلی تو پھر صدام مرحوم کی والدہ دھاڑیں مار کر رونے لگیں۔ مجھے محسوس ہوا کہ شاہد یہ بے ہوش نہ ہو جائے۔ میں نے تیمور سے کہا انہیں دلاسہ دو۔ مگر انکا لہجہ بتا رہا تھا کہ
زندگی تیرے تعاقب میں یہ لوگ اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
کہا جاتا ہے کہ جوان اولاد جب مرتی ہے تو والدین کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور اکثر ہم نے جوان اولاد کی وفات پر والدہ کو اپنے ہاتھ سر پر اور والد کو اپنے ہاتھ کمر پر رکھے دیکھا ہے۔ اس دن میری ملاقات زبیر کیانی سے تو نہیں کویء مگر صدام کے بڑے بھائی اور سیاسی و سماجی انسان قاسم کیانی کے ساتھ کافی دیر بیٹھا رہا اور صدام کی بے

بہا خوبیوں پر بہت گپ شپ ہویء۔ راجہ صدام راجہ ظفر مرحوم کا بیٹا اور راجہ سکندر کیانی کا پوتا تھا اور آج بھی ہے۔ صدام کے والد راجہ ظفر مرحوم 49 برس کی عمر میں یہ فانی دنیا چھوڑ گئے تھے اور اس وقت صدام کی عمر ساڑھے چھے سال تھی۔ جب صدام فوت ہوا تو اسکے بیٹے کی زریاب سکندر کیانی کی عمر 4 سال ہے اور بار بار کہتا ہے کہ میں نے ابو کے پاس سونا ہے۔ ابھی تک بہت سہما ہوا رہتا ہے بار بار اپنے والد کو یاد کر کے خاموشی سادھ لیتا ہے

اور کبھی کبھی تو سارے گھر کو سر پر اٹھا لیتا ہے، اففف میرے خدایا۔اور صدام ایک ننھی پری یعنی بیٹی جسکی عمر سوا سال ہے اس کا کیا ہوگا۔ بحر حال میرا
رب سب کچھ سنبھال لے گا وہ جو کرتا ہے بہترین کرتا ہے۔ تیمور کی باتوں نے میرا کلیجہ چیر کر رکھ دیا جب اس نے یہ بات کی کہ صدام عمر میں بہت چھوٹا مگر کردار میں بہت چٹان کی مانند تھا۔ بہن بھائیوں کا سرمایہ تھآ۔ مثبت کردار کا مالک تھا۔ کسی غیر ضروری سرگرمی میں ملوث نہ ہوتا۔ صبح سے لیکر شام تک گھر والوں کی خدمت خاص کر کے والدہ کے ساتھ سایہ بن کر کھڑا رہتا تھا۔ ارد گرد بسنے والے یتیم اور بے سہارا لوگوں کی رات کے اندھیرے میں مدد کرتا تھا۔ بہت سارے لوگوں کو زمینیں لے کر دیں اور مولوی صاحب کو پلاٹ لیکر دیا اور رجسٹری اس کے نام کروائی۔ بہت سارے مثبت کام کیے مگر میں وہ بیان نہیں کر سکتا۔جب تیمور کے بیٹے نے قرآن مجید حفظ کیا تو میں وہاں آخر تک موجود رہا۔ میں نے اس وقت محسوس کیا کہ صدام بولتا کم تھا مگر ایک لمحہ بھی کرسی پر نہیں بیٹھا۔ اس کو یہ فکر تھی کہ کہیں کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو جائے۔ صدام عمر میں چھوٹا مگر کردار میں 70 سال کا بزوگ لگتا تھا۔ اس دن مجھے یوں لگا کہ تیمور نے اپنا بھائی خود سے جدا کر دیا۔ تیمور کے آنسوؤں باہر کم مگر اندر دریا برپا کر رہے تھے۔ تیمور کی نظریں نیچے اور سوچ صدام کی والدہ اور اسکی اولاد کی طرف مجھے جاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ جب میں سوچتا ہوں کہ صدام کی بہنیں کیسے جیتی ہوں گی اپنے بھائی کے بغیر اور اس والدہ کا کیا حال ہوگا جب ہر لمحے اسکو صدامکے

قدموں کی آہٹ اور آواز آتی ہو گی۔ کبھی کبھی تو چارپائی پر بیٹھے ہوئے بھی بیٹے کی آواز انہیں گھر کے دروازے پر جانے کیلئے مجبور کر دیتی ہوگی۔ اور پھر جب دروازے پر جاتی ہوں گی تو باہر دیکھ کر یاد آتی ہو گی کہ میرا صدام تو یہ دنیا چھوڑ گیا اور پھر سوچیں کہ اس ماں پر کیا گزرتی ہوگی۔ جب صدام کے موبائیل پر کوئی کال آتی ہوگی تو اچانک زبان سے آواز آتی ہو گی کہ صدام آپ کا فون بج رہا ہے۔ اف میرے خدایا وہ لمحات کیسے گزرتے ہوں گے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
اب کے برس ایسا قحط پڑا ہے اشکوں کا
کہ آنکھ نم نہ ہوئی خوں میں ڈوب کر
اسکے بعد ایسا وقت آےء گا کہ ماں، بہن اور بھائی باہر سے خشک مگر اندر سے آنسوؤں کی ندیاں بہا رہے ہوں گے۔ کیونکہ جب باہر سے پانی ختم ہو جاتا ہے تو پھر اندر سمندر پربا ہو جاتا ہے مگر یہ محسوس وہی کرتا ہے جو اندر سے ریزہ ریزہ ہو چکا ہوتا ہے۔
یہ عید تو پھر سے لوٹ آئی
جو بچھڑ گئے کب لوٹیں گے
اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے صدام کے گھر والوں کے پاس مگر نہیں ہے تو صدام حسین نہیں ہے۔ صدام 6 برس میں یتیم ہوگیا تھا۔ مگر صدام مرحوم کی ننھی پری سوا سال کی یتیم ہو گئی ہے۔ اور بیٹا بھی صدام کی طرح والد گرامی کی جدائی میں روتا رہے گا کیونکہ یہ کسی کو بابا یا والد کہ کر پکار نہیں سکے گا۔ مگر یاد رکھیں اللہ کے ہر کام میں کوئی مصلحت ضرور ہوتی ہے اور یہ ہمیں بعد میں پتہ چلتا ہے۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انبیاء کرام بھی اپنے رشتوں کے جدا ہونے پر روتے رہے۔ لہذا رونے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ مگر یاد رکھیں کہ زندگی کے ہر خوشی والے دن مسکراہٹ کی بجائے

رونا مقدر بن جائے گا۔ یہ کالم لکھنے سے دس منٹ پہلے تیمور سے فون پر بات ہوئی اور وہ بھی بات کرتے کرتے مجھے یوں لگا کہ وہ رو رہا ہے۔ تیمور کے والد جب فوت ہوئے تو تیمور کافی بیمار ہو گیا تھا۔ گھر سے باہر نہیں نکل سکتا تھا اور اب بھی جب والد کی بات کریں تو تیمور کو سکتا طاری ہو جاتا ہے۔ میرے والد اور تیمور کے والد شادی کے دوست تھے اور پھر میں اور تیمور بھی شادی کے دوست ہیں۔ مگر صدام حسین کی جدائی نے ہم سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور یہ صدام کا صدمہ کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ اللہ پاک صدام کی مغفرت فرمائے اور گھر والوں کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔ جانے سے پہلے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
لوگوں نے جس وقت ستارے بانٹ لیے
اسلم اک جگنو کے پیچھے بھاگا تھا
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔
اللہ حافظ صدام حسین کیانی۔ انشاء اللہ اگلے جہان ملاقات ہوگی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں