242

جوان بیٹیوں کا باپ

اکبر گیٹ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میں پریشان ہو گیا۔ میں نے پوچھا اکبر آپ کیوں رو رہے ہو تو کہنے لگا صاحب جی رو تو نہیں رہا ویسے ہی میری آنکھوں میں پانی آ رہا ہے۔ میرے اصرار کرنے پر بھی اکبر نے مجھے کچھ نہ بتایا لیکن کچھ نہ بتا کر بھی اس نے مجھے بہت کچھ بتا دیا اور سوچنے پر مجبور بھی کر دیا کہ ایسی کون سی بات ہے کہ ہمارا مسلمان بھائی ہمارے پاس ہوتے ہوئے بھی دکھ درد کی کیفیت میں ہے۔ اس کی طبیعت معمول پر لانے کے لیے میں نے اس سے پوچھا کہ کھانا کھایا یا نہیں تو کہنے لگا صاحب جی میں دن کا کھانا نہیں کھاتا بس ایک ہی دفعہ رات کو پیٹ بھر کر کھاتا ہوں۔ پھر میں نے پوچھا کہ ناشتہ تو کر کے آئے ہو ناں۔ تو کہنے لگا جی الحمدُ اللہ میں ناشتہ کر کے ڈیوٹی پر آتا ہوں۔ اسکے میں نے باتوں باتوں میں اس سے پوچھا کہ ناشتے میں آپ کیا کھاتے ہو تو ایک لمبی آہ بھر کر اکبر نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی جس پر مجھے ایک دفعہ پھر تشویش ہوئی۔ میں نے ضد کی تو اکبر کے جملے نے ایک تیز دھار تلوار میرے جسم میں گھونپ دی۔ کہنے لگا” کئی سالوں سے کالی پتی کا قہوہ بنا کر پی لیتا ہوں اور اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ کم از کم ان سے تو بہتر ہوں

کالم نگار کی دیگر تحریریں بھی پڑھیں

جن کو یہ بھی میسر نہیں ”۔ لیکن میں نے دیکھا کہ ایک بار پھر اس کی آنکھوں سے پانی بہنا شروع ہو گیا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس دفعہ بھی نہ رو رہا ہو بلکہ واقعی اس کی آنکھیں پانی سے نم ہو رہی ہوں۔لیکن میں چونکہ خود اچھے برے حالات دیکھ چکا ہوں اس لیے میں سمجھ سکتا تھا کہ وہ خون کے آنسو رو رہا تھا۔ اکبر اب مکمل طور پر ریزہ ریزہ ہو کر مجھے اپنے حالات زندگی سناتا جا رہا تھا اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی سن رہا تھا۔ اس دن مجھے پتہ چلا کہ دنیا کے دکھ کتنے بڑے ہیں۔اپنی کہانی سناتے سناتے اکبر نے مجھے بتایا کہ”میری دو جوان بیٹیاں ہیں جن کے رشتے طے ہو چکے ہیں لیکن جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ان کو رخصت کرنا میرے بس میں نہیں ورنہ وہ کل ہی آ کر میری بیٹیوں کو بیاہ کر لے جائیں۔ اس نے ایک دفعہ کہا میں نے باتوں باتوں میں لڑکے والوں سے کہا کہ اگر جہیز کے بغیر ہی آپ میری بیٹیوں کو عزت کے ساتھ اپنے گھر لے جائیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہو گی لیکن جواب یہ ملا کہ اس طرح خاندان میں ہماری ناک کٹ جائے گی کہ کوڑی کوڑی کے محتاج لوگوں میں رشتہ کر لیا ہے۔


اب اس بات کو دو برس گزر چکے ہیں اور میں اچھے وقت کے انتظار میں اپنی جوان بیٹیوں کو برے وقت کی نذر کر رہا ہوں کیونکہ جوان بیٹیوں کا گھر پربیٹھنا بھی والدین کے لیے کوہ گراں کی حیثیت رکھتا ہے ” میں نے اکبر کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی طرف کر کے سینے کے ساتھ لگایا اور جی بھر کر رویا کیونکہ کافی عرصہ گزر چکا تھا مجھے رونے کے لیے کوئی کندھا میسر نہیں آ رہا تھا۔ا کبر مجھے کہنے لگا کہ صاحب جی آپ تو ایسا نہ کریں لیکن میں کیا کرتا کہ یہاں پر ہر کوئی اپنے دکھوں کو رو رہا ہے۔ اکبر کو پکڑ کر میں اپنے دفتر میں لے گیا۔ ہم نے مل کر کھانا کھایا۔

پھر میں نے اس سے کہا کہ کسی روز ہم کافی دیر بیٹھ کر باتیں کریں گے اور کھانا بھی اکھٹے کھائیں تو کہنے لگا کہ صاحب جی ہم دال روٹی کھانے کے عادی ہیں ہم مرغ مسلم نہیں کھایا کرتے کیونکہ ہمیں دال روٹی کی عادت ہو چکی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ میں بھی دال روٹی کھا کر پلا بڑھا ہوں اور آج بھی دال روٹی ہی کھاتا ہوں۔ میں اس کی باتوں کا مطلب سمجھ رہا تھا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اندر سے بول رہا تھا۔ اس کے آنسو ابھی تک اس کی آنکھوں سے نہر کی صورت میں رواں دواں تھے اور میں اس کے لیے کچھ بھی نہ کر سکا کیونکہ اس کی باتوں نے مجھے لاجواب کر دیا تھا اور میں تسلی کے چند بول ہی اسے تحفے میں دے سکا۔ یکدم اکبر نے میرا ہاتھ تھاما اور کہنے لگا صاحب جی میں کروڑوں سے بہتر ہوں کیونکہ مجھے آپ جیسے ہمدرد دوست میسر ہیں کہ میں جب بھی اداس ہوتا ہوں تو اللہ میرے کسی نہ کسی بھائی کو میری آس بندھانے کے لیے میرے پاس بھیج دیتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ اکبر مکمل طور پر مطمئن نظر آرہا تھا اور ایسے لگ رہا تھا کہ وہ سونے کا نوالہ کھاتا ہے اور پھولوں کی سیج پر سوتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے دیے پر مطمئن تھا۔ بے شک خوشحال وہی لوگ ہیں جو اللہ کی دی ہوئی محدود روزی پر مطمئن ہیں۔ آخر میں میں نے اکبر سے کہا کہ آپ صرف نام کے اکبر نہیں بلکہ کام کے بھی اکبر ہیں جس کے سامنے مجھ جیسے ہزاروں ” اصغر” ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں