175

باپ بیٹے کی کہانی

؎بیٹھے تھے آنکھ پونچھ کر دامن نچوڑ کر
اب کیا کریں کہ پھر سے کوئی یاد آ گیا
ہم سب کو معلوم ہے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے مگر یاد رکھیں انسان جنت کے دروازے کے قریب تو پہنچ جاتا ہے لیکن جنت کا دروازہ اس وقت تک نہیں کھلے گا جب تک باپ راضی نہ ہو۔ مگر اس سچی کہانی کو پڑھ کر ہر چار سطور کے بعد آپ اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے پائے جائیں گے اور دامن بھیگ جائے گا۔ جب آنسوؤں کی لڑی شبنم کے قطروں کی طرح آہستہ آہستہ ختم ہوتی جائے گی تو پھر آپ کے آنسو آپ کے یا کسی اور کے کہنے پر نہیں رکیں گے بس آخری بوند کے بعد خود ہی خشک ہو جائیں گے۔ یہ کہانی دو باپ بیٹوں کی زندگی کی تلخ ترین گرمی والے صحرا کے اس سخت ترین سفر کی ہے جو کم از کم تین عشروں یعنی تیس برس پر مشتمل ایک خار دار راہ گزر پر مبنی ہے۔ جب بیٹے جوان ہوتے ہیں تو وہ والدین کی کمر کا سہارا بن جاتے ہیں۔ راجہ شعیب کا بڑا بھائی راجہ سجاد جوانی کی عمر میں جب وہ شہزادہ تھا تو ایک ایسا مرض لاحق ہوا کہ چند دنوں کے اندر اسکی دونوں آنکھوں کی بینائی ختم ہو گئی اور دو دن قبل دوستوں کے ساتھ کسی دوست کی مہندی میں ہنستا مسکراتا اور بھنگڑا ڈالتا ہوا یہ تندرست لڑکا اچانک یوں دوستوں اور رشتے داروں سے الگ ہوا کہ اسکے بعد ایک ہاتھ باپ کے ہاتھ میں اور دوسرا ہاتھ باپ کے کندھے پر پایا گیا اور پھر ساری زندگی باپ نے اپنا دن رات اپنے بیٹے راجہ سجاد کیلئے یوں وقف کیا کہ اس فرشتہ صفت باپ کو نہ کسی شادی پر دیکھا گیا اور نہ کسی اور تہوار پر۔ اگر کہیں جانا بھی ہوتا تو بیٹے کے بغیر یہ باپ ہر گز نہ جاتا اور کبھی کسی محفل میں یہ شخص تشریف فرما ہو تو اسے بہت جلدی ہوتی تھی کہ کہیں میرا لاڈلا میرے بغیر پریشان نہ ہو گیا ہو۔ میری چھٹی حس یہ کہتی ہے کہ راجہ سجاد اپنے والد کے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتا ہوگا۔ میں نے جہاں بھی راجہ غالب کو دیکھا اپنے بیٹے راجہ سجاد کے ساتھ دیکھا۔ بازار سے اگر سبزی بھی لینے جانا ہو تو یہ باپ اپنے بیٹے سجاد کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں اور سجاد کا دوسرا ہاتھ اپنے ناتواں کندھوں پر پایا ہوا ہی دیکھا ہے اور اس بات کی گواہی ساگری قصبہ کے تمام افراد دیں گے اور ایک وقت آیا کہ اس مرد قلندر باپ کا اٹھا ہوا سر اٹھا ہوا کندھا آہستہ آہستہ جھکنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ باپ نیچے جھکتا چلا گیا اور پھر کیا ہوا کہ زندگی یک دم بدل گئی اور یہ طاقتور انسان اپنے وزن کے ساتھ بیٹے کا وزن تقریباً تیس برس اٹھا اٹھا کر اپنی کمر دہری کر بیٹھا مگر بیٹے کا وزن بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچ کر بھی اٹھائے رکھا جیسے کوئی بوڑھا شخص جوانی میں کندھے والی ریڑھی سے مزدوری کرتا کرتا پڑھاپے میں بھی اتنا ہی وزن اٹھا رہا ہوتا ہے کیونکہ اسے اس وزن کی عادت پڑ جاتی ہے اور یہ زیادہ وزن اسے کم از کم وزن محسوس ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ راجہ غالب کی سینکڑوں کنال زمین ہے اور باپ دادا کی وراثتی زمین کے مالک اس شخص نے اپنے بیٹے کیلئے کوئی نوکر نہیں رکھا بلکہ ایک باپ نے خود اپنے بیٹے کا نوکر بننا گوارا کر لیا۔ مگر یاد رکھیں اس باپ کو ایک جنت ماں کے قدموں کے وسیلے سے ملے گی جس کے دروازے تک لانے میں راجہ غالب کے باپ کا سہارا ہوگا اور دوسری جنت اس باپ کو اپنے بیٹے راجہ سجاد کیلئے اپنی ساری زندگی وقف کر کے بغیر کسی حساب کتاب کے مل جائے گی۔ میں نے بچپن میں انکل غالب کی جوانی بھی دیکھی اور آج انکی جھکی ہوئی کمر بھی دیکھ رہا ہوں۔ دوستو یہ کمر کبھی بھی نہ جھکتی یہ کمر اور پڑھاپا اس شخص نے اپنے کڑیل جوان بیٹے کی جسامت کو اٹھا اٹھا کر گزارا اور اس شخص نے زندہ رہ کر بھی جنت خرید لی جس کی گواہی ارد گرد کے لوگ دیتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ سب لکھتے ہوئے مجھے وہ زمانہ بھی یاد آ رہا ہے جب میں راجہ وقاص،راجہ تصور راجہ توقیر اور میرے ڈھیروں دوست راجہ سجاد کو میرے مرحوم بھائی راجہ وحید،راجہ شہزاد یونس شاہ میر راجہ اطہر راجہ عقاب اور ڈھیروں افراد کے ساتھ گفتگو سینا چیر کے رکھ دیتی ہیں۔ دوستو اور بھائیو بہت سے والدین ایسے ہیں کہ جنہیں میرا مالک پڑھاپے کی دہلیز پر کھڑا کر کے اپنی اولاد کی خدمت کے عوض جنت سے نواز دے گا اور ان والدین میں راجہ سجاد کے والدین بھی ان شاء اللہ ضرور شامل ہوں گے۔ اس دن صبح سات بجے جب مجھے خبر ملی کہ راجہ شہزاد کا چچا زاد بھائی اور راجہ شعیب کا بھائی راجہ سجاد تقدیر الٰہی سے وفات پا گیا تو محلے کی گلیوں میں یہ باپ بیٹا اسی طرح چلتے ہوئے دکھائی دیے دل نے ماننے سے انکار کر دیا۔ مگر چند لمحوں بعد محسوس ہوا کہ یہ دنیا تو فانی ہے اور ہم سب نے ایک دن یہ عارضی دنیا جوڑ جانی ہے۔
میری تمنا تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا کہ بھول گیا سوال بھی
اس وقت راجہ سجاد کے گھر والے ایک دوسرے کے چہروں کو دیکھ کر ان میں سجاد کو کرید کرید کر تلاش کر رہے ہیں۔مگر انہیں کیا معلوم جس کو میرا رب اپنے پاس بلا لے وہ کبھی واپس نہیں آیا کرتا اور اسی کانام زندگی اور موت ہے۔ کبھی کبھی میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ سجاد کا والد اب ان گلیوں میں بہت کم نظر آئے گا اگر نظر آیا بھی تو انکا ایک ہاتھ جڑا ہوا دکھائی دے گا بھلا کیوں؟؟ وہ اس لیے کہ سجاد کا والد اپنے اسی ہاتھ میں سجاد کا ہاتھ لیے چل رہا ہوگا۔ ہو سکتا ہے یہ ہاتھ ان سے ضد کرے کہ میرے ہاتھ میں سجاد کا ہاتھ دو اللہ اکبر اللہ اکبر۔ سجاد تم چلے تو گے مگر جاتے جاتے آپ اور آپ کے والد گرامی ارد گرد بسنے والوں کو ایک سبق اور تربیت دے کے گئے جنت حاصل کرنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں جن میں سے ایک زریعہ یہ تحریر پڑھ کر بھی سمجھ آ جائے گا۔ راجہ سجاد 14 مئی 2023 کی صبح اپنے گھر والوں کو، برادری اور یہ عارضی دنیا چھوڑ کر وہاں چلا گیا جہاں سے واپسی کا گمان میں محال ہے۔ جاتے جاتے سجاد مرحوم کیلئے دعائیں اور سجاد کے والد گرامی کی زندگی کے مقصد پر ایک شعر جس میں سینکڑوں الفاظ پر مشتمل ایک مضمون چھپا ہوا ہے اسے پڑھیں اور پھر سب سے الگ ہو کر اپنی زندگی کے نشیب و فراز پر غور کریں اور سنبھل جائیں کیونکہ یہ دنیا تو فانی ہے۔
آتی صدیوں کے لیے سرخیء خون دل سے
آؤ وقت کی پیشانی پہ کچھ تحریر کریں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں