343

راجہ محمد بشیر مرحوم کی زندگی

کالج کی دوستی‘ہمیشہ ساتھ نبھائے

کاش میں اس ہنس مکھ اور عظیم انسان سے اپنی زندگی میں صرف ایک دفعہ مل لیتا تو آج مزید انکی طبیعت اور کردار میری آنکھوں کے سامنے جلملا رہے ہوتے۔ جو فرد بھی مجھے ملتا ہے

جب انکا نام لیتا ہے تو اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور اگر کوئی روتا نہیں تو وہ اپنی گردن نیچے کر کے یہ باور کرواتا ہے کہ وہ باہر سے خشک مگر اندر سے ریزہ ریزہ ہو رہا ہے۔ یاد رکھیں جس کے آنسوؤں باہر نہیں نکلتے اسکا وجود سمندر کی لہروں سے کھیل رہا ہوتا ہے اور اس وقت وہ ماضی کے دریچوں پر بیٹھ کر اپنی غلطیوں پر بے بہا آنسووں نچھاور کر رہا ہوتا ہے

۔ ایک بار ہوا یوں کہ راجہ نعیم پکھڑال والے سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ بھائی نعیم نے جب مجھ سے میرا تعارف پوچھا تو میں نے کہا میں ساگری سے ہوں اور میں داماد ہوں راجہ محمد بشیر مرحوم کا۔ بس یہ بات کرنے کی دیر تھی کہ وہ خوش بھی ہوا اور مایوسی نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ چار چھے منٹ خاموش رہا اور کہنے لگا کہ وہ اپنے دور کے درویش صفت انسان تھے۔ میں نے پوچھا جلدی سے بتاؤ۔ کہنے لگے انکا کردار صاف شفاف آئینے کی مانند تھا اگر میں انکے کردار پر بولنا شروع کر دوں تو سارا دن لگ جائے گا مگر انکی خوبیاں ختم نہیں ہوں گی۔ بس ایک بات سنو باقی باتیں بعد میں بتاؤں گا۔ کہنے لگے کہ ایک بار میری ان سے ملاقات ہوئی اور مجھے کہنے لگے کہ شادی کیوں نہیں کر رہے ہو۔ میں نے بہت سی باتیں اور مسائل ان کے سامنے رکھے۔

جانے سے پہلے کہنے لگے اس کے بعد جب آپ سے ملاقات ہو تو آپ نے مجھے بتانا ہے کہ انکل میں نے شادی کر لی ہے اور اگر کوئی مالی مسائل ہیں تو مجھے بتاؤ میں آپ کے لیے حاضر ہوں۔ کافی گپ شپ ہوئی اور بعد میں،میں نے شادی کر لی۔ میرے سسر راجا بشیر کے والد گرامی راجہ غزن خان بھی بہت نفیس دبنگ اور دوسروں کے مسائل حل کرتے کرتے اپنی زندگی گزار دی۔ اور پھر یوں ہوا کہ زندگی یکسر بدل گئی اور وہ بھی اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔ راجہ بشیر کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹا راجہ حارث اقبال ایف بی آر میں آفیسر ہے۔ حارث بھائی نے ایم بی اے ایریڈ یونیورسٹی سے اور پنجاب یونیورسٹی سے وکالت کی ڈگری حاصل کی ہے اور دانش کافی عرصے سے آسٹریلیا سڈنی میں مقیم ہے اپنی فیملی کے ساتھ۔ دانش انجینئر ہے

اور اسکی زوجہ پنجاب یونیورسٹی کی ٹاپر ہے۔ راجہ محمد بشیر کی دو بیٹیاں ہیں ایک ڈاکٹر ہے جو اپنے خاوند اور دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کے ساتھ سعودی عرب میں رہائش پذیر ہیں۔ اسکے خاوند نے لمس سے ایم بی اے کیا اور بہت بہترین عہدے پر سعودی عرب میں کسی oil company میں جاب کر رہا ہے۔ دوسری بیٹی میری شریک حیات ہے جو آرمی پبلک سکول اینڈ کالجز کے ہیڈ آفس جی ایچ کیو میں Subject speciallist Mathematics ہے۔ میرے بچوں کی پرورش 99 فیصد میری مسز کر رہی ہے باقی ایک فی صد میں کر رہا ہوں۔ میں کبھی کبھی اونچا بول لیتا ہوں مگر میں نے اپنی مسز کو کبھی اونچا بولتے نہیں دیکھا اور یہ والدین کی تربیت کا نتیجہ ہے۔بہر حال دوبارہ چلتے ہیں اپنے سسر راجہ محمد بشیر کی زندگی کی طرف۔ میری ساس کبھی کبھی جب بات کرتی ہیں اپنے خاوند کی تو ہسپتال سے شروع ہو کر انکی وفات کے مناظر جب بیان کرتی ہیں تو میں وہاں سے اٹھ کر باہر چلا جاتا ہوں

اور کافی روتا ہوں۔ کہتی ہیں کہ ساری زندگی کبھی ترش انداز میں نہیں بولے۔ غریب نادار اور مستحق افراد کی چھپ کر مدد کیا کرتے تھے۔ جب گاؤں سے راولپنڈی شہر میں منتقل ہوئے تو اپنے بھانجوں کو بھی ساتھ لے آئے اور انہیں راولپنڈی میں تعلیم دلوائی۔ آپ ایم ای ایس میں ملازمت کرتے تھے تو اپنے گاؤں یا کسی بھی شہر سے تعلق رکھنے والے افراد کو جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو بغیر کسی لالچ کے اپنی تنخواہ میں سے انکی مدد کرتے اور رات کو سکون سے سو جاتے۔ ساری زندگی”گڑھوں کو میدان بناتے بناتے گزار دی“

۔
مثبت انداز میں ساری زندگی گزاری اور منافقت انکی سوچ سے بہت دور تھی۔ جو بات کرتے کسی شخص کے سامنے کرتے۔ پیٹھ پیچھے کوئی بات ہر گز نہ کرتے۔ لیکن یہ بات عیاں ہے کہ جسکی تعریف یا خوبی بیان کرتے چاہے وہ بندہ سامنے ہو یا نہ ہو ہر حال میں کر جاتے۔ میری ساس جن کو میں اماں کہ کر پکارتا ہو اور اپنی والدہ کو امی کہ کر پکارتا ہوں‘میری ساس کہتی ہیں کہ ساری زندگی میرے ساتھ نرم مزاجی میں بات کرتے ہوئے گزار دی۔ دکھ اس بات کا ہے کہ جب میں ہسپتال سے گھر پہنچی تو چند گھنٹے بعد معلوم ہوا

کہ میرے خاوند فوت ہو گئے ہیں۔ بس وہ لمحہ میری زندگی کا تلخ ترین لمحہ اور کوہ گراں ثابت ہوا۔ کہتی ہیں آج اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے مگر میری زندگی کا ساتھی اور میرے بچوں کا باپ گھر کے ہر کرنے میں ہر لمحے نظر آتا ہے۔ میرے سسر 6 جولائی 1942 کو اس فانی دنیا میں پیدا ہوئے اور 21 جولائی 1998 میں اپنا ہنستا بستا گھر چھوڑ کر رب کے حضور پیش ہو گئے۔
بیٹھے تھے آنکھ پونچھ کر دامن نچوڑ کر
اب کیا کریں کہ پھر سے کوئی یاد آ گیا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں