259

دکھی ماں نے مثال قائم کردی

کالج کی دوستی‘ہمیشہ ساتھ نبھائے

آج میں گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا تو میری نظر ایک خاتون پر پڑی۔ چونکہ میں تھوڑا آگے نکل گیا تھا مگر اس کی حالت دیکھ کر میں پریشان ہو گیا اور گاڑی پیچھے کی اور ان سے فروٹ خریدا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اس سے پوچھوں کہ آپ دونوں ٹانگوں سے معذور ہیں اور صبح سے لیکر شام تک یہ مشقت بھرا کام کیوں کرتی ہیں۔ بحر حال اللہ پاک نے مجھے حوصلہ دیا اور میں نے یہ سب اس ماں سے پوچھ لیا۔سب کچھ دریافت کرنے کے بعد میں نے پوچھا کہ آپ کی اولاد ہے۔ بس یہ سننے کی دیر تھی کہ وہ ضعیف والدہ اتنی رو پڑی کہ میں بھی اس کے ساتھ زارو قطار رونے لگا۔ کہنے لگی کہ میرے سوہنے پتر میری بات سن کر مزید مت رونا

کیونکہ تمیارا رونا مجھے میرے تین بچوں کی یاد دلا رہا ہے کیونکہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ یہ کہہ کر دوبارہ اس نے چپ سادھ لی اور میں نے کہا میں نہیں روں گا۔ پھر اس بوڑھی خاتون نے وہ جملہ بولا کہ میں بھی سن کر سکتے کی حالت میں چلا گیا۔ وہ جملہ یہ تھا۔میرے سوہنے من موہنے پتر میرے تین بیٹے اسلام آباد سے کرال چوک کی طرف گھر آ رہے تھے اور اچانک انکا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور تینوں ایک ہی وقت میں اللہ کے پاس چلے گئے۔ افف بس یہ سننے کی دیر تھی اور میں ان کے پاؤں میں پڑھ گیا اور پھر میں ایسے تڑپا کہ جیسے میں انکے بیٹوں کا بھائی اور اس خاتون کا بیٹا ہوں۔ اسکے بعد میں اس معزور خاتون کے پاؤں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ لیے

اور میرے آنسوؤں اس سے بھی زیادہ چھلک رہے تھے۔ کہنے لگی بیٹے پیچھے دیکھو لوگ آپ کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ میں نے پیچھے نہیں دیکھا اور اس ماں کے ساتھ اسی طرح روتا رہا۔ میں نے کہا یہ بچہ کون ہے تو کہنے لگی یہ میرا نواسا ہے۔ میں نے پھر پوچھا کہ آپ کی تینوں بہوؤں نے دوبارہ دوسری شادی تو نہیں کی؟ تو کہنے لگی ایک بہوں نے بھی شادی نہیں کی کیونکہ ان سب کے بچے ہیں۔ پھر روتے ہوئے کہنے لگی کہ جب میرے بیٹوں کی وفات ہوئی تو دو ماہ بعد
میرے دو بیٹیوں کے گھر دو بچے پیدا ہوئے لیکن ایک بچہ کچھ دنوں بعد اپنے والد کے پاس چلا گیا یعنی فوت ہو گیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ یہ کام آپ کب سے کر رہی تو کہنے لگی بہت عرصے سے۔ پھر میں نے پوچھا کہ منڈی سے پھل کون لا کر دیتا ہے تو جواب یہ ملا کہ اس فروٹ کا مالک مجھے یہ سب لا کر دیتا ہے اور مجھے وہ 1000 مزدوری دیتا ہے یعنی مہینے کہ 30000 روپے۔ کہتی ہیں کبھی کبھی وہ مجھے فالتو بھی دے دیتا ہے۔ میں نے سوچا آج کے دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں کہ خود غریب ہو کر بھی دوسروں کی چپکے سے مدد کرتے ہیں۔ پھر وہ اماں کہتی ہیں جلدی سے نیچے سے اٹھو لوگ آپ کی تصویری بنا رہے ہیں۔ میرے سامنے ایک یونیورسٹی کی سٹوڈینٹ میری تصویر بنا رہی تھی تو میں نے اپنا موبائل اس کو دیا اور کہا اس موبائل سے بھی میری دو تصویریں بنا دو

۔ یہ سن کر اس نے اپنے موبائل سے اور میرے موبائل سے کافی تصویریں بنا دیں۔ پھر جب میری نظر دوسری سڑک پر پڑی تو ایک 45 برس کی عورت اپنی گاڑی روک کر یہ سب منظر دیکھ کر آنسوؤں کی لڑی جارہی تھی۔ جب میں نے اس کی حالت دیکھی تو مجھے محسوس ہوا کہ دولت اور شہرت سے انسان کو سکون نہیں مل سکتا۔ کیا پتہ اس عورت نے اپنی زندگی میں کیا کیا کوہ گراں اور مشکلات دیکھی ہوں۔ ورنہ لوگوں کے سامنے رونا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس دن میں اس ریڑھی والی با ہمت خاتون کے ساتھ 30 منٹ تک بیٹھا رہا اور بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ مجھے تو وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ یہ باہمت اور حوصلہ مند عورت مجھے چپ کروا رہی تھی اور میں اسکو حوصلہ دے رہا تھا۔پھر میں نے اس نواسے کو دیکھا تو وہ دوسری طرف منہ کر کے پتہ نہیں کن خیالوں میں گم تھا۔ اسکی آنکھیں خشک تھیں مگر مجھے وہ روتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے اس کو گلے لگایا اور کہا میں آپ سے ہی فروٹ لیا کروں گا انشاء اللہ۔جانے سے پہلے اماں جی نے مجھے کہا کہ آج میں بہت خوش ہوں کہ آج کی دنیا میں بھی مجھے میرے تین بیٹوں میں سے ایک بیٹا آپ کی شکل اور بہتر کردار میں مل گیا۔ مجھے کہنے لگی پتر سر نیچے کرو۔

میں نے سر نیچے کیا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر میرے ماتھے پر پیار کیا اور پھر کہنے لگی۔بیٹا کبھی کبھی مجھ سے مل لیا کرو میں آج بہت سکون محسوس کر رہی ہوں۔ آپ کو دیکھ کر مجھے میرا دوسرا بیٹا یاد آ گیا کیونکہ وہ بھی مجھے ایسے ہی پیار کرتا تھا جیسے آپ نے آج سب لوگوں کے سامنے میرا سر فخر سے بلند کر دیا۔ اماں نے یہ بات کہی اور میں گھر چلا گیا۔ گھر جا کر اپنے گھر والوں کو ساری داستان سنائی اور پھر دس منٹ بعد میں نے یہ سب کچھ رب کی طرف سے نچھاور کیے ہوئے الفاظ سے تحریر کر دیا اور پھر میں بھی مطمئن ہو گیا۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ جس حال میں بھی رکھے سدا خوش رہیں کیونکہ وہ دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی آزماتا ہے۔ جتنا وہ اس دُنیا میں دے گا اگلے جہان اس کا حساب بھی اسی طرح لے گا اور اگر ادھر کچھ بھی نہیں دیا تو حساب کس بات کا لے گا؟مگر یاد رکھنا کہ کچھ لوگ اللہ سے شکائتیں کرتے ہیں کہ انکو دیا اور ہمیں نہیں دیا۔ ایسے لوگ بھی جہنم میں جائیں گے۔ اور جو اللہ کے دیے پر مطمئن ہیں وہ فوراً جنت میں جائیں گے کیونکہ اللہ تو ان سے حساب لے گا جن کو بہت کچھ دے کر اس فانی دنیا میں پیدا کیا تھا۔ لہذا اللہ سے شکائتیں نہ کیا کریں کیونکہ جن لوگوں کو میرا مالک اس دنیا میں کم دے گا اسے اخروی دنیا میں بے بہا عطا کرے گا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں