کالج کی دوستی‘ہمیشہ ساتھ نبھائے 180

مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں

چوہدری محمد طارق منہاس اور چوہدری اکرم منہاس والدہ کی جدائی میں خود سے بھی جدا ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ طارق بھائی کے ایک جملے نے میرے اندر کے خاموش آدمی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور وہ خاموش آدمی انسان بنتا ہوا دکھائی دیا۔ اس دن میں آدمی سے انسان بنتا گیا۔ طارق منہاس کے ایک فقرے نے مجھے زلزلے کے جھٹکے دینا شروع کر دیے اور وہ جملہ یہ تھا۔’اماں کی وفات سے پہلے میں نے انکا ہاتھ چوم کر پاؤں کو بھوسا دیا اور میرے اندر سے ایک خوف زدہ آواز آئی کہ والدہ محترمہ ہمیں معاف کر دینا

ہم آپ کے لیے وہ سب نہیں کر پائے جس کی آپ حقدار تھی”.طارق نے ہاتھ میری ٹانگ پر رکھا ہوا تھا اور اس کے خشک آنسو باہر آنے کی بجائے اس کے دل ودماغ میں سمندر کی تیز دھار لہریں بپا کر رہے تھے۔ اس شخص کی پلکیں پت جھڑ کی طرح خشک مگر دل میں ایک سیلاب عمارتوں کو گراتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ طارق بھائی کے جذبات سے مجھے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اس اولاد نے اپنے والدین کیلئے جو وہ کر سکتے تھے کیا مگر دل میں ایک خلش باقی رہ گئی تھی کہ ہو سکتا ہے ہم سے کوتاہی ہو گئی ہو۔ بس اس ایک سوچ نے طارق بھائی اور اور اکرام بھائی کے اندر بے شمار سوالات امڈ رہے تھے۔ طارق منہاس لاہور میں مقیم ہیں

گزشتہ کئی برسوں سے مگر اس شخص نے تمام عیدیں اپنے گاؤں پسرور میں والدین کے ساتھ گزاریں ہیں۔ زندگی کی ایک عید بھی والدین کے بغیر نہیں گزاری۔ ان کی باتوں سے مجھے یہ محسوس یوا کہ جیسے وہ اج بھی اپنی والدہ کی بہترین صحت کیلئے دعائیں کر رہا ہو۔ حالانکہ اولاد کو معلوم ہے کہ ہر انسان نے یہ فانی دنیا چھوڑ جانی ہے مگر والدہ کی طویل عمر اور صحتِ والی دعائیں چونکہ زندگی میں ہر وقت کرتے رہے لہذا اسے بھولنے میں کافی وقت لگے گا۔ اس دن میرے آنسو باہر نکل رہے تھے اور طارق بھائی کے آنسو اندر کی طرف نچوڑے جا رہے تھے۔ چوہدری راسب منہاس نے جب دعا کی تو مجھے میرے والد گرامی شدت سے محسوس ہوئے۔ چوہدری صاحب دعا کرواتے ہوئے دیکھ تو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کی طرف تھے مگر یاد اپنے والدین کو کر رہے تھے۔

اس غمگین گھڑی کے دوران میں نے دیکھا کہ راجہ شاہد اور راجہ خالد ماضی کی یادوں کو اپنی جھولیوں سے گرنے سے بچا رہے تھے۔ انصر جاوید اور اس کے دوست یار الگ سے ایک نفسیاتی پڑاؤ بنا کر اپنی سوچوں میں گم تھے۔ ہر انکھ اشک بار تھی۔میں نے طارق بھائی سے کہا آج چھاؤں کا ایک گھنا درخت یہ علاقہ اور یہ گھر چھوڑ کر بھاگا جا رہا ہے۔ مگر یاد رکھنا ماؤں کی دعائیں گھر کے کونے کونے میں رحمت اور نعمت بن کر ساری زندگی آپ کا تعاقب کرتی رہیں گیں۔ پھر مجھے یاد آیا کہ جدائی تو ہر حال میں جدائی ہی ہوتی ہے۔ جس پر یہ وقت آتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ جدائی اور صبر کیسے برداشت کیا جاتا ہے۔ تو پھر مجھے کہنے دیجئے کہ
اسکی جدائی کھا گئی گھن کی طرح ہمیں
ہم سخت جان پہلے تو یوں کھوکھلے نہ تھے
اس دن اس گھر کی صدائیں، ہوائیں اور درو دیوار عجیب کشمکش کا شکار تھے اور دو پرندے گھر کی چھت پر ایک کونے میں چپ کر کے طارق بھائی کی والدہ کے روٹی کے ٹکڑوں کا انتظار کر رہے تھے جو وہ ہر صبح اپنے ہاتھوں کے بنے پراٹھوں میں سے انکا حصہ الگ کر کے انکو ناشتہ دیا کرتی تھیں۔

خدا کی قسم میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اگر کبھی میری والدہ پرندوں کو روٹی کے ٹکڑے دینے میں دیر کر دیتی ہیں تو چڑیاں میری ماں کے کندھوں پر بیٹھ جاتیں ہیں اور انہیں کوئی ڈر خوف نہیں ہوتا کہ یہ مجھے پکڑ لے گی۔ معلوم یہ ہوا کہ ہماری ماؤں کو پرندے بھی اپنی ماں ہی سمجھتے ہیں۔ اس دن میں نے طارق بھائی کے گھر کے ان دو پرندوں کو ایک ماں کی جدائی میں چور چور پایا۔ پسرور کے اس گاؤں کے افراد اس دن پریشان حال دکھائی دے رہے تھے کیونکہ مائیں تو سب کی ایک جیسی ہوتی ہیں نا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ سے ایسے باتیں کرتے تھے کہ جیسے دوست ہوں مگر جب موسیٰ علیہ السلام کی ماں اس دنیا سے رخصت ہوگئی تو فرمایا موسیٰ اب زرا سنبھل کر آنا اب تمہارے پیچھے تمہارے لیے دعا کرنے والی ماں نہیں رہی

حالانکہ کہ وہ ماں اللہ سے باتیں نہیں کرتی تھی مگر ماں ہر حال میں ماں ہی ہوتی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔
باپ سراں دا تاج محمد
تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں
طارق بھائی ابھی تو کچھ دنوں بعد نوالہ حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ ماں کی چارپائی ماں کے جوتے ماں کے بستر کی چادریں کمبل اور وہ پیالی جس میں ماں چائے پیتی تھی اسے دیکھ کر والدہ کا اٹھنا بیٹھنا اور انکی باتیں اور ڈانٹ ڈپٹ بے چین کر کے رکھ دے گی۔ اگر کبھی زندگی میں کسی چھوٹی سی بات پر ہم نے تھوڑی اونچی آواز میں ماں سے بات کی تو اب وہ بھی تڑپنے پر مجبور کر دے گی۔دوستو یاد رکھو اگر کبھی والدین نے ڈانٹا چھوڑ دیا تو سمجھ جاؤ کہ والدین آپ کی آواز سے خوفزدہ ہو گئے ہیں۔ اگر والدین نے آپ سے کچھ مانگنا چھوڑ دیا تو سمجھ جاؤ کہ رب تعالیٰ آپ سے ناراض ہو گیا ہے اور جس سے والدین ناراض ہو گئے وہ جتنی مرضی عبادتیں کر لے

وہ جہنم کا ایندھن ہوگا۔ اللہ پاک ہم سب کو والدین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ کہ ہم جو اپنے والدین کے ساتھ کریں گے ہمارے ساتھ اس سے بڑھ کر ہوگا اب چاہے وہ اچھا ہو یا برا۔طارق بھائی کی کامیابیوں سے انکی تربیت سے یہ معلوم ہوا کہ انکے والدین ان سے خوش تھے۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ انکی والدہ کی قبر کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں